Ahsan-ut-Tafaseer - Hud : 116
وَ اَوْحَیْنَاۤ اِلٰى مُوْسٰى وَ اَخِیْهِ اَنْ تَبَوَّاٰ لِقَوْمِكُمَا بِمِصْرَ بُیُوْتًا وَّ اجْعَلُوْا بُیُوْتَكُمْ قِبْلَةً وَّ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ١ؕ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ
وَاَوْحَيْنَآ : اور ہم نے وحی بھیجی اِلٰى : طرف مُوْسٰى : موسیٰ وَاَخِيْهِ : اور اس کا بھائی اَنْ تَبَوَّاٰ : کہ گھر بناؤ تم لِقَوْمِكُمَا : اپنی قوم کے لیے بِمِصْرَ : مصر میں بُيُوْتًا : گھر وَّاجْعَلُوْا : اور بناؤ بُيُوْتَكُمْ : اپنے گھر قِبْلَةً : قبلہ رو وَّاَقِيْمُوا : اور قائم کرو الصَّلٰوةَ : نماز وَبَشِّرِ : اور خوشخبری دو الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
اور ہم نے موسیٰ اور اس کے بھائی کی طرف وحی بھیجی کہ اپنے لوگوں کے لئے مصر میں گھر بناؤ اور اپنے گھروں کو قبلہ (یعنی مسجدیں) ٹھیراؤ اور نماز پڑھو۔ اور مومنوں کو خوشخبری سنادو۔
87۔ جب فرعون اور اس کے ہمراہیوں پر عذاب آنے کا زمانہ قریب آیا تو اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) اور ان کے بھائی حضرت ہارون کو بذریعہ وحی کے یہ حکم دیا کہ تم اپنی قوم سمیت ان کفار سے علیحدہ ہوجاؤ اور الگ اپنا ایک محلہ بسا لو اور گھروں کا رخ قبلہ کی طرف رکھو اس میں نماز پڑھا کرو تاکہ فرعون کے ظلم سے امن میں رہو نماز کا حکم اس واسطے ہوا تھا کہ کثرت سے نماز پڑھنے سے بلائیں دفع ہوا کرتی ہیں چناچہ مسند امام احمد اور ابوداؤد میں حذیفہ ؓ کی ایک معتبر حدیث ہے کہ جب حضرت ﷺ کو کوئی امر ایسا در پیش ہوتا جس سے آپ غمگین ہوا کرتے تو آپ نماز پڑھنے لگتے تھے 1 ؎ اس آیت کے متعلق اس بات کا مفسرین میں اختلاف ہے کہ خدا نے موسیٰ (علیہ السلام) کو گھر بنانے کا حکم دیا یا مسجد بنانے کا۔ حضرت ابن عباس ؓ کہتے ہیں کہ مسجد کو فرمایا ہے اور مجاہد و قتادہ ؓ وغیرہ یہ کہتے ہیں کہ گھر بنانے کا حکم ہوا 2 ؎ کیوں کہ لوگ پہلے عبادت خانہ میں جا کر عبادت کیا کرتے تھے جب ان کو خوف ہوا کہ فرعون کے زمرہ کے آدمی ہمیں ایذا پہنچائیں گے اور قتل کر ڈالیں گے تو خدا کا یہ حکم ہوا کہ اپنا گھر قبلہ رخ بنالو وہیں نماز پڑہا کرو اس معنے کو حافظ ابو جعفر ابن جریر نے ترجیح دی ہے۔ 3 ؎ قبلہ کے تعین میں بھی مفسروں کا اختلاف ہے بعضوں کا قول یہ ہے کہ قبلہ بیت المقدس کو فرمایا جو یہود کا قبلہ ہے اور بعضوں نے کہا ہے کہ کعبہ مراد ہے کیونکہ حضرت آدم (علیہ السلام) کے بعد جتنے لوگ ہوئے سب کا قبلہ یہی کعبہ رہا ہے علاوہ اس کے سورة بقرہ میں گزرچکا ہے کہ یہود کے قبلہ کا تورات میں اور نصاریٰ کے قبلہ کا انجیل میں ذکر نہیں ہے بلکہ دونوں گروہ کا قبلہ ان کے علماء کا ٹھہرایا ہوا ہے اس لئے آسمانی حکم کا قبلہ بیت المقدس کو نہیں کہا جاسکتا پھر موسیٰ (علیہ السلام) کو حکم ہوا کہ مومنوں کو اس کی خوشی سنادو کہ آخرت میں تمہیں اس کا اچھا اجر ملے گا کہ تم نے اللہ کے رسول کی نصیحت کو مان کر ہر طرح کی تکلیف پر صبر و توکل کا اقرار کیا۔ اور ایمان واسلام کے پابند ہوگئے۔ صحیح بخاری و مسلم کے حوالہ سے معاذ بن جبل ؓ کی حدیث ایک جگہ گزر چکی ہے کہ اللہ کا حق بندوں پر شرک سے بچنے کا ہے اور اس حق کے پورا ہوجانے کے بعد اللہ کا وعدہ مغفرت کا ہے۔ 4 ؎ یہ حدیث (و بشر المؤمنین) کی گویا تفسیر ہے جس کا حاصل یہ ہے کہ حضرت موسیٰ کی نصیحت کے موافق بنی اسرائیل نے توحید کا اور شریعت موسوی کے احکام کی تعمیل کا اقرار جب کرلیا تو اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدہ کے موافق ان کو نجات کی خوشخبری دی تورات کے نازل ہونے سے پہلے متفرق طور پر جو احکام نازل ہوئے تھے یہ ان احکام کا ذکر ہے کیوں کہ تورات فرعون کے غرق ہوجانے کے بعد نازل ہوئی ہے۔ 1 ؎ تفسیر ابن کثیر ص 428 ج 2۔ 2 ؎ تمام اقوال کے لئے دیکھئے تفسیر ابن کثیر ص 429 ج 2۔ 3 ؎ تفسیر ابن جریر ص 153۔ 155۔ ج 11۔ 4 ؎ مشکوۃٰ ۔ ص 13۔ 14 کتاب الایمان۔
Top