Tafseer-e-Madani - Al-Baqara : 24
فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا وَ لَنْ تَفْعَلُوْا فَاتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْ وَ قُوْدُهَا النَّاسُ وَ الْحِجَارَةُ١ۖۚ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَ
فَاِنْ : پھر اگر لَمْ تَفْعَلُوْا : تم نہ کرسکو وَلَنْ تَفْعَلُوْا : اور ہرگز نہ کرسکو گے فَاتَّقُوْا النَّارَ : تو ڈرو آگ سے الَّتِیْ : جس کا وَقُوْدُهَا : ایندھن النَّاسُ : آدمی وَالْحِجَارَةُ : اور پتھر أُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْکَافِرِیْنَ : کافروں کے لئے
پس اگر تم لوگ (ہمارے اس کھلے چیلنج کے با وجود) ایسا نہ کرسکے اور ہرگز بھی نہیں کرسکو گے تو پھر بچو تم (دوزخ کی) اس (ہولناک) آگ سے جس کا ایندھن لوگ ہوں گے اور پتھر (اور) جو تیار کی گئی ہے کافروں کے لئے
68 ایک فیصلہ کن اور بےمثال چیلنج : سو ارشاد فرمایا گیا " پس تم لوگ بچ جاؤ دوزخ کے عذاب سے، اس کتاب برحق پر صدق دل سے ایمان لا کر، اس کی عظمتوں اور صداقتوں کو سچے دل سے تسلیم کرکے، اور اس کی تعلیمات مقدسہ اور ہدایات عالیہ پر پوری طرح عمل پیرا ہو کر، کہ تمہارے اس عجز و درماندگی سے یہ امر روز روشن کی طرح واضح ہوگیا ہے کہ یہ کلام کسی انسان کا کلام نہیں ہوسکتا، بلکہ یہ درحقیقت انسانوں کے خالق ومالک حضرت حق جل مجدہ کی طرف سے نازل شدہ کلام ہے، اور جیسا وہ خود بےمثل و بےمثال ہے، اسی طرح اس کا کلام بھی بےمثل و بےمثال ہے، اور جس طرح خود اس کی کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، اسی طرح اس کے اس کلام معجز نظام کی بھی کوئی نظیر و مثال ممکن نہیں، اور جس کا یہ ایک کھلا اور واضح ثبوت موجود ہے کہ تم لوگ اپنی مایہ ناز فصاحت و بلاغت کے باوجود اس کلام مجید اور اس کے لانے والے نبیٔ برحق ﷺ سے اپنی کھلی عداوت و دشمنی کے باوصف، اور حضرت حق جل جلالہ کے اس قدر صریح، مکرر، اور پرزور چیلنج کے ہوتے ہوئے بھی تم لوگ اس کی ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بنا لانے سے بھی عاجز ہو ‘ جبکہ اس کو تمہارے سامنے پورے کا پورا اس نبیٔ امی نے پیش فرمایا جس نے زندگی بھر دنیا میں کبھی کسی انسان سے ایک حرف بھی نہیں سیکھا پڑھا تھا، بلکہ وہ تو اپنے ہاتھ سے لکھنا بھی نہیں جانتے تھے، تو اس سے بڑھ کر آپ ﷺ کی اور آپ ﷺ کے لائے ہوئے اس کلام مجید کی حقانیت و صداقت کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے ؟ اب اگر تم اس پر ایمان لاؤ گے تو اس سے اس کی شان میں تو کوئی اضافہ نہیں ہوجائے گا، بلکہ اس میں خود تمہارا اپنا ہی بھلا ہے کہ اس ایمان و تصدیق کی بدولت تم سعادت دارین سے بہرہ ور ہوسکو گے، اور دوزخ کی اس ہولناک آگ سے بچ سکو گے جس کا ایندھن لکڑی بورے وغیرہ کا عام اور معروف ایندھن نہیں ہوگا بلکہ وہ انسانوں اور پتھروں کا ایندھن ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اور جس کی ہولناکی کا اس جہاں میں ازخود تصور کرنا بھی کسی کے لئے ممکن نہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 69 دوزخ کا ایندھن بننے والے لوگ کونسے اور کیوں ؟ : اور اس کا ایندھن وہ لوگ ہوں گے جو دنیا میں کافر و مشرک اور باغی وطاغی بن کر رہے ہوں گے۔ سو اپنے خود اختیار کردہ اس کفر و شرک اور بغاوت و سرکشی کے نتیجے میں وہ بدبخت آتش دوزخ کے اس ہولناک الاؤ میں ہمیشہ کیلئے جلتے رہیں گے۔ سو یہ آگ اصل میں ان کفار و معاندین ہی کیلئے تیار کی گئی ہے جو کہ اپنے کفر و انکار پر اڑے رہے ہوں گے، اور " اُعِدَّتْ " ماضی مجہول کا صیغہ ہے یعنی وہ آگ تیار کی جاچکی ہے، اگرچہ لوگوں کو نظر نہیں آتی، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا ہر حکم " کن فیکون " کی شان کا ہوتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ سو جنہوں نے کفر و انکار پر ہی جان دی ہوگی وہ اس آگ میں ہمیشہ کیلئے جلتے رہیں گے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف " اُعِدَّتْ " " اس کو تیار کیا جا چکا ہے " کے اس ارشاد سے ایک اہم حقیقت تو یہ واضح ہوجاتی ہے کہ وہ آگ تیار ہے، صرف اتنی بات ہے کہ ابتلاء و آزمائش کے تقاضوں کی بناء پر آج اس پر پردہ پڑا ہوا ہے۔ کل قیامت کے روز جب اس سے اس پردے کو ہٹا دیا جائے گا تو وہ بےنقاب ہو کر سب کے سامنے آجائے گی۔ چناچہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا، " وَبُرِّزَت الْجَحِیْمُ لِلْغاوِیْن َ " (ا لشعراء : 90) یعنی " اس روز دوزخ کو بےنقاب کردیا جائے گا گمراہوں کے لئے، اور دوسری حقیقت اس ارشاد سے یہ واضح ہوجاتی ہے کہ دوزخ کی یہ تیاری اصل کافروں کے لئے ہوگی نہ کہ مسلمانوں کے لئے۔ اور جو مسلمان اپنے معاصی وذنوب کی بنا پر اس میں جائیں گے وہ اس کا اصل مقصود نہیں بلکہ ان کا اس میں داخل ہونا اور عذاب پانا بالتبع اور ثانوی حیثیت میں ہوگا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 70 دوزخ کے ایندھن کی ہولناکی کا بیان : دوزخ کا ایندھن بننے والے پتھر کیسے اور کونسے ہوں گے ؟ : ایسے پتھر جن میں ان کے وہ خود ساختہ، بےجان اور بےحس و بےشعور بت بھی شامل ہوں گے، جن کی یہ لوگ دنیا میں پوجا پاٹ کیا کرتے تھے اور جن کے بارے میں انہوں نے طرح طرح کے بےبنیاد اور بےحقیقت مفروضے از خود گھڑ رکھے تھے، اور قسما قسم کے افسانے پھیلا رکھے تھے، کہ یہ " سرکاریں " جو در حقیقت عام پتھر نہیں بلکہ فلاں فلاں، ہستیوں کی نمائندہ اور ان کی مظہر اور اوتار ہیں، بڑی پہنچی ہوئی " سرکاریں " اور خاص ہستیاں ہیں۔ ہمارے کرتا دھرتا اور حاجت روا و مشکل کشا یہی ہیں، ہماری عرضداشتیں ان کے آگے اور ان کی اس کے آگے پیش کی جاتی ہیں، کیونکہ وہ ہماری سنتا نہیں اور ان کی ٹھکراتا نہیں، وغیرہ وغیرہ، جیسا کہ دوسری جگہ فرمایا گیا { وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہ اَوْلِیَائَ مَا نعْبدُہُمْ الاَّ لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلٰی اللّٰہ زُلْفٰی } (اور جنہوں نے اس (مالک حقیقی وحدہ لاشریک) کے سوا اور کارساز بنا رکھے ہیں (ان کا کہنا یہ ہے کہ) ہم ان کی عبادت نہیں کرتے مگر اس لئے کہ یہ ہمیں اللہ کے قریب کردیں) (الزمر : 3) اور دوزخ کے ایندھن میں جلنے والے ان پتھروں میں کبریت و گندھک کے ایسے اثرات پیدا کردئے جائیں گے، جن کی بناء پر ان کی آگ اور زیادہ سخت اور ہولناک ہوجائے گی ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ جیسا کہ مختلف آثار و روایات میں وارد و منقول ہے (ابن کثیر، فتح القدیر، اضواء البیان وغیرہ وغیرہ) ۔ پھر ان بتوں کا اس آگ میں ڈالا جانا اور ان کا وہاں جلنا ان کو عذاب دینے کے لئے نہیں ہوگا کیونکہ وہ تو بےجان و بےشعور پتھر ہیں، جن کے مکلف اور معذّب ہونے کا اپنی اصل کے اعتبار سے تو کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، بلکہ ان کا آگ میں ڈالا جانا در اصل ان مشرک بت پرستوں کے عذاب میں اضافہ کرنے کے لئے ہوگا کہ جن پر انہوں نے تکیہ و آسرا کر رکھا تھا، اور جنکی زندگی بھر وہ ان کی پوجا پاٹ کرتے رہے تھے، وہ ان کے کام آنے کی بجائے اس وقت اس طرح ان کے سامنے آگ میں جل رہے ہیں۔ سو اس سے ان کو انتہائی صدمہ ہوگا کہ وہ ان کے کچھ کام آنے کی بجائے آج خود ان کے سامنے اور ان کے ساتھ دوزخ کی آگ میں جل رہے ہیں، البتہ جن زندہ اور باشعور ہستیوں نے اپنی خواہش و چاہت سے اپنی پوجا کرائی ہوگی کہ لوگ ان کی موجودگی میں ان کے آگے سجدہ ریز ہوتے، ماتھے ٹیکتے، ان میں خدائی صفات و اختیارات مانتے، شرکیہ اعتقادات رکھتے، اور ان شرکیات کا پروپیگنڈا کرتے ‘ اور یہ ان کو اس سے نہ روکتے نہ منع کرتے تھے۔ بلکہ اپنی پوجا پاٹ کے ان شرکیہ افعال سے یہ لوگ خوش ہوتے تھے، تو وہ بھی یقیناً سزا کے طور پر دوزخ میں ڈالے جائینگے ‘ کیونکہ ان کا قصور اور ان کی سرکشی واضح ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔۔ چناچہ قرآن حکیم میں اس بارے میں دوسری جگہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { اِنَّکُمْ وَمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْن اللّٰہ حَصَبُ جَہَنَّمَ اَنْتُمْ لَہَا وَارِدُوْنَ } ۔ " بیشک تم اور جن کی پوجا تم لوگ کرتے ہو اللہ کے سوا، سب دوزخ کا ایندھن ہو، تم سب کو اس میں بہر حال داخل ہونا ہے " ( سورة الانبیائ : 98) رہ گئیں حضرات انبیاء اور اولیاء کرام کی وہ مقدس ہستیاں، جن کی پوجا بعد کے لوگوں نے ازخود کی، اور ان میں خدائی صفات مانیں ان کا معاملہ اس سے یکسر الگ اور مختلف ہے، کیونکہ ان کا اس میں کوئی قصور نہیں، بلکہ اس جرم کے اصل ذمہ دار وہ لوگ ہیں جنہوں نے ان حضرات کی مرضی کے خلاف، اور ان کی صاف وصریح تعلیمات کے برعکس، اس طرح کی شرکیات کا ارتکاب کیا، اس لئے ایسے حضرات دوزخ اور اس کے عذاب سے دور اور ہر طرح سے محفوظ ہوں گے جیسا کہ ارشاد فرمایا گیا { اِنَّ الَّذِْینَ سَبَقَتْ لَہُمْ مِنَّا الْحُسْنٓیٰ اُولئک عَنہْاَ مُبْعَدُوُنَ } ۔ (الانبیائ : 10 1) اور یہ دوزخ سے اسقدر دور ہوں گے کہ اس کی آہٹ بھی نہ سن سکیں گے، اور جنت میں اپنی من چاہی نعمتوں کے اندر ہمیشہ کے آرام و سکون میں رہ رہے ہوں گے، جیسا کہ سورة انبیاء کی مذکورہ بالا آیت کریمہ کے بعد والی آیت کریمہ میں اس کی تصریح موجود ہے۔ والحمد للہ علی کل حال ونعوذ بہ جل وعلا من حال اہل النار ۔ 71 دوزخ اصل میں کافروں ہی کے لیے : سو اس سے واضح فرمادیا گیا کہ دوزخ کی آگ اصل میں کافروں ہی کیلئے تیار کی گئی ہے : کہ وہی ہیں جو کہ اپنے جرم کفر و انکار کی بناء پر اس کے اصل میں لائق اور مستحق ہیں، اور نجاست کفر و شرک نے ان کے ظاہر و باطن میں پیوست ہو کر، اور ان کے رگ و ریشہ میں سرایت کرکے، ان کو سراپا نجس و ناپاک بنادیا ہے، جس کے باعث اب وہ ہمیشہ کے لئے اسی ٹھکانے کے باسی بن کر رہیں گے، جبکہ گنہگار مسلمانوں کو ان پر طاری ہونے والی گناہوں کی عارضی میل کی صفائی کے بعد دوزخ سے نکال دیا جائے گا ۔ ِوَالْعِیَاذ باللّٰہ مِنْ کُلّ نُوْعٍ مِنْ عَذَاب الْجَحِیْمِ ۔ سو کفر و انکار ہر شر و فساد اور ہلاکت و تباہی کی جڑ بنیاد ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ ایمان وانقیاد دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف کافر و منکر انسان چونکہ اپنے کفر وانکار کی میل کی بنا پر ایسا گندا اور اس قدر پلید ہوجاتا ہے کہ اس کی ذات ہی نجس بن کر رہ جاتی ہے۔ اس لیے اس کا ٹھکانا دوزخ کی وہ دہکتی بھڑکتی آگ ہی ہوگی جبکہ مومن اپنے ایمان کی بنا پر ناپاک نہیں ہوسکتا۔ جیسا کہ صحیح بخاری وغیرہ کی روایت میں وارد ہے ۔ " ان المومن لا ینجس " ۔ البتہ گناہوں کی بنا پر جو میل اس پر طاری ہوگئی تھی اس کے ازالے اور اس کی صفائی کے لیے اس کو کچھ عرصہ دوزخ میں رہنا پڑے گا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس کے بعد اس کو اس سے نکال دیا جائے گا۔ (معارف وغیرہ) ۔ سو کفر و انکار محرومیوں کی محرومی ہے۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top