Tafseer-e-Madani - Al-Anbiyaa : 92
اِنَّ هٰذِهٖۤ اُمَّتُكُمْ اُمَّةً وَّاحِدَةً١ۖ٘ وَّ اَنَا رَبُّكُمْ فَاعْبُدُوْنِ
اِنَّ : بیشک هٰذِهٖٓ : یہ ہے اُمَّتُكُمْ : تمہاری امت اُمَّةً : امت وَّاحِدَةً : ایک (یکتا) ڮ وَّاَنَا : اور میں رَبُّكُمْ : تمہارا رب فَاعْبُدُوْنِ : پس میری عبادت کرو
بیشک یہ امت ہے تم سب کی ایک ہی امت اور میں رب ہوں تم سب کا پس تم سب لوگ میری ہی بندگی کروف 2
120 لفظ " امت " کا معنیٰ و مفہوم اور حضرات انبیاء کے ایک امت ہونے کا مطلب ؟ : سو ارشاد فرمایا گیا اور تاکید کے ساتھ فرمایا گیا کہ " بیشک ۔ ان حضرات کی ۔ یہ امت جس کا ذکر ہوا ایک ہی امت ہے "۔ " امت " اس جماعت اور گروہ کو بھی کہا جاتا ہے جو ایک ہی عقیدہ و دین رکھتے ہوں۔ جیسا کہ سورة اعراف میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَمِمَّنْ خَلَقْنَا اُمَّۃٌ یَّہْدُوْنَ بالَحَقِّ وَبِہ یَعْدِلُوْنَ } ۔ (الاعراف :181) ۔ یا جیسا کہ سورة آل عمران میں فرمایا گیا ۔ { وَلْتَکُنْ مِنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ } ۔ (آل عمران :104) اسی طرح " امت " کے اس لفظ کا اطلاق اس گروہ کے مقتدا و پیشوا پر بھی ہوتا ہے۔ جیسا کہ حضرت ابراہیم ۔ (علیہ السلام) ۔ کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِنَّ اِبْرَاہِیْمَ کَانَ اُمَّۃً قَانِتًا لِلّٰہِ } ( النحل :120) ۔ اسی طرح " امت " کے لفظ کا اطلاق اس طریقہ و دین پر بھی آتا ہے جس پر ایسے لوگ چلتے ہوں جیسا کہ سورة زخرف میں فرمایا گیا ۔ { اِنَّا وَجَدْنَا آبَائَ نَا عَلٰی اُمَّۃٍ } ۔ ( الزخرف : 22) یا جیسا کہ سورة مومنون میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَاِنَّ ہٰذِہ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَاحِدَۃً وَاَنَا رَبُّکُمْ فَاتَّقُوْنِ } ( المومنون :52) نیز " امت " کا لفظ مدت کے معنی میں بھی آتا ہے۔ جیسے سورة ہود میں ارشاد فرمایا گیا ۔ { وَلَئِنْ اَخَّرْنَا عَنْہُمُ الْعَذَابَ اِلٰی اُمَّۃٍ } ۔ ( ہود :8) یا جیسے سورة یوسف میں فرمایا گیا ۔ { وَادَّکَرَ بَعْدَ اُمَّۃٍ } ۔ (یوسف :45) اور یہاں پر یعنی سورة انبیاء کی اس آیت کریمہ میں " امت " سے مراد جمہور اہل علم کے نزدیک طریقہ اور ملت ہی کے معنیٰ ہیں۔ یعنی ان تمام حضرات انبیائے کرام ۔ علیہم الصلاۃ والسلام ۔ کا جن کا ذکر اوپر آیا ہے سب کا طریقہ ایک ہی طریقہ تھا۔ اور ان سب کی ملت ایک ہی ملت تھی۔ یعنی توحید خداوندی۔ اور یہ تمام حضرات اسی ایک طریقے پر قائم تھے کہ حق اور ہدایت کا طریقہ ہمیشہ یہی ایک طریقہ رہا ہے کہ عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اللہ وحدہ لا شریک ہی کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ کہ معبود برحق بہرکیف وہی اور صرف وہی وحدہ لا شریک ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اسی لیے فرمایا گیا ۔ { اِنَّ الدِّیْنَ عِنْدَ اللّٰہِ الْاِسْلَام } ۔ (آل عمران :19) ۔ یعنی دین تو اللہ تعالیٰ کے یہاں صرف اسلام ہی ہے۔ ( روح، ابن کثیر، قرطبی، مراغی اور محاسن وغیرہ ) ۔ پس جن لوگوں نے یہودیت اور عیسائیت وغیرہ کے مختلف ناموں سے جو مختلف دین بنا لیے وہ ان سب کی اپنی کارستانی اور دین حق سے بغاوت و سرکشی اور انحراف ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ راہ حق و ہدایت پر ثابت قدم رکھے اور زیغ وضلال کی ہر قسم سے ہمیشہ محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 121 تمام انبیاء و رسل کا دین ایک ہی دین تھا : یعنی اسلام جس کے معنیٰ اللہ کے آگے جھکنے اور اسی کے ہو کر رہنے کے ہیں۔ سو ارشاد فرمایا گیا اور دین تم سب لوگوں کا ایک ہی دین ہے جس میں نہ کوئی تعدد ہے نہ اختلاف۔ اصول سب کے ایک ہی ہیں اور جو کچھ فرق ہوتا ہے وہ ان فروع میں ہوتا ہے جن کا تعلق خاص حالات اور خاص ازمنہ و اوقات سے ہوتا ہے۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا گیا ۔ { لِکُلِّ جَعَلْنَا مِنْکُمْ شِرْعَۃً وَّمِنْہَاجًا } ۔ ( المائدۃ : 48) ۔ اور { امۃ } کا نصب یہاں پر حالیت کی بنا پر ہے۔ ( ابن کثیر، جامع البیان وغیرہ ) ۔ سو دین تم سب لوگوں کا ایک ہی دین ہے جس کی اصل و اساس توحید خداوندی ہے کہ معبود برحق تم سب کا ایک ہی معبود ہے۔ یعنی اللہ وحدہ لا شریک۔ پس عبادت و بندگی کی ہر قسم اور ہر شکل اسی وحدہ لا شریک کا حق ہے۔ پس تم سب اسی کی بندگی کرو اور ہمیشہ اور ہر حال میں اسی کے آگے جھکو اور دل و جان سے جھکو کہ اسی میں تمہارا بھلا ہے۔ یہی تمہاری شان عبدیت کے لائق اور اس معبود حقیقی کا حق ہے جو تم سب پر اس کی مخلوق اور اس کے بندے ہونے کے اعتبار سے عائد اور واجب ہوتا ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ بہرکیف یہاں پر اوپر جملہ انبیاء و رسل کے ذکر کے بعد اب آخر میں خلاصہ بحث کے طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ ان تمام حضرات کی دعوت ایک ہی دعوت تھی۔ یہ سب ایک ہی امت ہیں اور میں تم سب کا رب ہوں۔ پس اگر کسی نے ان انبیاء و رسل کے درمیان کسی طرح کی کوئی تفریق کی اور ان کے پیش فرمودہ دین کے اندر کسی طرح کی کسی تحریف یا آمیزش و ملاوٹ کا ارتکاب کیا تو اس کی ذمہ داری خود اسی پر ہوگی۔ ان حضرات انبیاء و رسل کا دامن اس سے پاک ہے ۔ علیہم الصلاۃ والسلام - 122 عبادت و بندگی اللہ وحدہ لا شریک ہی کا حق ہے : کہ معبود برحق وہی وحدہ لا شریک ہے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " میں رب ہوں تم سب لوگوں کا "۔ پس تم سب لوگ میری ہی بندگی کرو اور میرے ساتھ کسی کو بھی، کسی بھی طور پر حقِّ عبادت و بندگی میں شریک نہیں ٹھہرانا۔ نہ لکڑی پتھر وغیرہ کے کسی بت کو اور نہ کسی زندہ یا مردہ انسان کو اور نہ کسی فرشتے یا پیغمبر کو۔ ( المراغی، المحاسن، الروح وغیرہ ) ۔ سو عبادت و بندگی کی ہر قسم اور اس کی ہر شکل اسی وحدہ لا شریک کا حق اور اسی کا اختصاص ہے۔ اور اس کے سوا اور کسی کے لیے بھی عبادت و بندگی کی کوئی بھی قسم کسی بھی شکل میں بجا لانا شرک ہے جو کہ ناقابل معافی جرم اور ظلم عظیم ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ لیکن افسوس کہ ظالم انسان نے اس ظلم عظیم کا ارتکاب ہمیشہ کیا اور طرح طرح سے کیا۔ پہلے بھی کیا اور اب بھی کر رہا ہے۔ اور کھلے مشرکوں کے علاوہ کلمہ گو مشرک بھی اس کا ارتکاب جگہ جگہ اور طرح طرح سے کر رہا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ چناچہ جگہ جگہ غیر اللہ کے لیے سجدے ہو رہے ہیں۔ خود ساختہ اور من گھڑت سرکاریں گھڑی اور کھڑی کی جا رہی ہیں۔ انکے گرد چکر لگائے جا رہے ہیں۔ طواف کیے جا رہے ہیں۔ پھیرے مانے جا رہے ہیں۔ ان کے نام کی ڈالیاں مانی اور پیش کی جا رہی ہیں اور ان کو غائبانہ طور پر حاجت روائی اور مشکل کشائی کے لیے پکارا بلایا جاتا ہے اور ان سے استعانت و استمداد اور استغاثہ کے شرک کا ارتکاب کیا جا رہا ہے ۔ { فَاِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ } ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ شرک کے ہر شائبے سے ہمیشہ محفوظ رکھے ۔ آمین۔
Top