Tafseer-e-Madani - Ash-Shu'araa : 14
وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ
وَلَهُمْ : اور ان کا عَلَيَّ : مجھ پر ذَنْۢبٌ : ایک الزام فَاَخَافُ : پس میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّقْتُلُوْنِ : قتل نہ کردیں
اور میرے ذمے ان لوگوں کا ایک گناہ بھی ہے جس کے باعث میں ڈرتا ہوں کہ کہیں تبلیغ رسالت سے قبل ہی وہ مجھے قتل نہ کردیں
11 حضرت موسیٰ کی حضرت ہارون کے لیے ایک خاص دعا اور اہل بدعت کے ایک مغالطے کا جواب : کہ میرے بھائی ہارون کو بھی کار رسالت کی ادائیگی کے لیے میرے ساتھ شریک کیا جائے۔ سو یہ حضرت موسیٰ کی طرف سے حضرت ہارون کو بھی پیغمبر بنائے جانے کی درخواست ہے۔ حضرت موسیٰ ۔ علی نبینا وعلیہ الصلوۃ والسلام ۔ نے اپنے اعذار پیش کرنے کے بعد اپنے بھائی حضرت ہارون کی رسالت کے لئے بھی بارگاہ خداوندی میں درخواست پیش کی تاکہ وہ ان کے معاون اور مددگار ہو سکیں۔ اور آپ کی اس دعا کو قبول بھی فرما لیا گیا۔ اہل بدعت کے بعض بڑوں نے اس سے غیر اللہ کی امداد کے ثبوت و جواز کی دلیل کشید کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔ چناچہ موصوف اس سلسلے میں اس مقام پر لکھتے ہیں کہ اس سے معلوم ہوا کہ اللہ کے بندوں سے مدد لینا سنت انبیاء ہے۔ اسے حرام یا شرک کہنا سخت جہالت ہے۔ حالانکہ یہ مدد و امداد تو زندگی میں اور اسباب کے درجے میں تھی۔ اسے کون حرام یا شرک کہہ سکتا ہے ؟ اس دنیا کا تو سارا نظام ہی اسباب پر چل رہا ہے۔ ہاں خلاف اسباب یا کسی سے اس کی موت کے بعد مدد مانگنا بلاشبہ شرک بھی ہے اور حرام بھی۔ اور قرآن و سنت کی نصوص اس پر شاہد عدل ہیں۔ اس کے ثبوت کا تو یہاں کوئی سوال ہی نہیں۔ کیسی مت ماری جاتی ہے ایسے لوگوں کی کہ یہ ان دو کھلی ہوئی حقیقتوں کے درمیان موجود واضح فرق کو بھی نہیں سمجھ سکتے۔ اور ان دونوں کو خلط ملط کر کے یہ لوگ ایسے غلط نتیجے نکالتے ہیں۔ سو ظاہری اسباب اختیار کرنا اور چیز ہے اور خلاف اسباب یا مافوق الاسباب کسی سے مدد مانگنا بالکل ایک دوسری شے۔ پہلی صورت نہ صرف جائز بلکہ امر واقع اور حقیقت نفس الامری ہے کہ یہ دنیا ہے ہی دارالاسباب۔ جبکہ دوسری صورت کسی مخلوق کے اندر ماننا شرک اور بلاشبہ شرک ہے۔ جیسا کہ قرآن و سنت کی بیشمار نصوص اس کی شاہد ہیں کہ خلاف اسباب یا مافوق الاسباب مدد کرنے کی یہ صفت خاصہ خداوندی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اور ہر مومن اپنی ہر نماز کی ہر رکعت میں ۔ { اِیَّاکَ نَعْبُدُ وَاِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ } ۔ کے کلمہ حصر کے ساتھ اسی حقیقت صادقہ کا اقرار و اظہار کرتا اور تاکید و تکرار کے ساتھ کرتا ہے۔ اور اسی کی تعلیم و تلقین نبی اکرم ﷺ نے اپنی امت کو صاف وصریح طور پر اس طرح فرمائی ہے ۔ " اِذَا سَأَلْتَ فَاَسْئِلِ اللّٰہ وَاِذَا اسْتَعَنْتَ فَاسْتَعِنْ باللّٰہِ " ۔ یعنی " جب تمہیں مانگنا اور سوال کرنا ہو تو اللہ سے مانگو اور سوال کرو اور جب تم مدد چاہو تو اللہ ہی سے چاہو " ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ مگر اہل بدعت ہیں کہ اس سب کے باوجود اس طرح کی مغالطہ آمیزیوں سے کام لینے اور اس طرح کی تحریفات سے کام لیتے ہیں۔ آدمی حیران ہوتا ہے کہ یہ لوگ خوف خداوندی سے کس قدر عاری ہوجاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم - 12 حضرت موسیٰ کے ایک طبعی خوف کا ذکر : سو حضرت موسیٰ نے اس موقعہ پر اپنے طبعی خوف کا اظہار کرتے ہوئے عرض کیا کہ " ان لوگوں کا میرے ذمے ایک گناہ بھی ہے۔ اس لیے میں ڈرتا ہوں کہ وہ مجھے قتل نہ کردیں "۔ سو آنجناب کا یہ خوف ایک طبعی خوف تھا جو کہ نبوت کے منافی نہیں۔ جیسا کہ سانپ بچھو وغیرہ سے ڈرنا ایک طبعی امر ہے۔ ایسے ڈر اور خوف کی بنا پر کسی پر کوئی سوال اور اعتراض نہیں کیا جاسکتا۔ بہرکیف حضرت موسیٰ نے بارگہ خداوندی میں اپنے اس خوف و اندیشہ کو پیش کرتے ہوئے عرض کیا کہ ان لوگوں کا مجھ پر ایک گناہ بھی ہے۔ یعنی ایک قطبی کا قتل۔ جسکو میں نے تادیب و سرزنش کیلئے ایک مکہ مارا تھا جس سے اس کا کام تمام ہوگیا تھا۔ جیسا کہ آگے سورة قصص میں اس کا قصہ تفصیلی طور پر آ رہا ہے۔ اس کی بنا پر حضرت موسیٰ نے عرض کیا کہ مجھے ان لوگوں سے ڈر ہے کہ کہیں وہ مجھے دیکھتے ہی قتل نہ کردیں۔ سو یہ خوف ایک طبعی خوف تھا جو ہر انسان کو پیش آسکتا ہے اور پیش آتا ہے۔ اور حضرات انبیاء و رسل اور خود ہمارے رسول امام الانبیاء حضرت محمد ﷺ بھی اس طرح کا خوف رکھتے تھے۔ اور آپ کی حفاظت کے لیے خاص انتظام موجود تھا۔ یہاں تک کہ یہ آیت کریمہ نازل ہوئی ۔ { واللہ یعصمک من الناس } ۔ (المائدۃ :67) (المراغی وغیرہ) ۔ سو حضرات انبیائے کرام اپنی بےمثال عظمت شان کے باوجود طبعی عوارض اور بشری تقاضوں سے پاک اور مبرا نہیں نہیں ہوتے ۔ علیہم الصلاۃ والسلام -
Top