Urwatul-Wusqaa - Ash-Shu'araa : 14
وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ
وَلَهُمْ : اور ان کا عَلَيَّ : مجھ پر ذَنْۢبٌ : ایک الزام فَاَخَافُ : پس میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّقْتُلُوْنِ : قتل نہ کردیں
اور ان کا مجھ پر ایک الزام (قتل) بھی ہے ، پس مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے مار ڈالیں گے
ان کا ایک گناہ میرے ذمہ ہے جس کے بدلہ میں وہ مجھے قتل کردیں گے اسکا مجھے اندیشہ ہے : 14۔ ” ان کا مجھ پر ایک الزام قتل بھی ہے اس لئے مجھے اندیشہ ہے کہ وہ مجھے اس کے عوض مار ہی ڈالیں “۔ یہ ایک وہ قبطی کا اتفاقی قتل تھا جو نبوت سے پیشتر اتفاقا معرض وجود میں آیا تھا جو زیادہ سے زیادہ قتل خطا کے ضمن میں آتا تھا اور پھر یقینا اس قتل خطا کا عوض بھی ہارون (علیہ السلام) نے چکایا ہوگا جو ایک فطری اور قانونی بات ہے ، قتل خطا کی سزا کسی قانون میں بھی قتل کے بدلہ قتل نہیں ہے تاہم مخالفت میں اس طرح کے احتمالات ہوتے رہتے ہیں اور موسیٰ (علیہ السلام) نے بھی یہ بات اسی ضمن میں ارشاد فرمائی ہے تاکہ علم الہی کے ذریعہ وہ بات معلوم ہوجائے جو کل کو ہونا ہے کیونکہ اللہ رب ذوالجلال والاکرام کا ارشاد تو پتھر پر لکیر ہے اور ہونے والی بات کو معلوم کرنے کی کوشش ایک فطری امر ہے اور یہی بات اس میں سمجھائی گئی ہے اور بلاشبہ عاقل کے لئے اشارہ کافی ہے ۔
Top