Tafseer-e-Majidi - Ash-Shu'araa : 14
وَ لَهُمْ عَلَیَّ ذَنْۢبٌ فَاَخَافُ اَنْ یَّقْتُلُوْنِۚ
وَلَهُمْ : اور ان کا عَلَيَّ : مجھ پر ذَنْۢبٌ : ایک الزام فَاَخَافُ : پس میں ڈرتا ہوں اَنْ : کہ يَّقْتُلُوْنِ : قتل نہ کردیں
اور میرے ذمہ ان لوگوں کا ایک جرم بھی ہے سو مجھے اندیشہ ہے کہ مجھے قتل ہی کرڈالیں گے،12۔
12۔ (قبل اس کے کہ میں فرائض تبلیغ ادا کرسکوں) جرم سے مراد ایک قبطی کا قتل ہے، جو حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے ہاتھ سے قبل نبوت اتفاقی طور پر ہوگیا تھا۔ (آیت) ” ولھم علی ذنب “۔ سے یہ مراد نہیں کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) نے اس کا جرم ہونا تسلیم بھی کرلیا تھا۔ آپ (علیہ السلام) کا مقصود صرف یہ تھا کہ ” ان کے خیال میں میں ان کا مجرم بھی ہوں “۔ المراد لھم علی ذنب فی زعمھم (کبیر) وتسمیتہ ذنبا بحسب زعمھم بما ینبی عنہ قولہ تعالیٰ لھم (روح)
Top