بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
Tafseer-e-Madani - Al-Ahzaab : 1
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰهَ وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلِیْمًا حَكِیْمًاۙ
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ : اے نبی ! اتَّقِ اللّٰهَ : آپ اللہ سے ڈرتے رہیں وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافروں وَالْمُنٰفِقِيْنَ ۭ : اور منافقوں اِنَّ اللّٰهَ : بیشک اللہ كَانَ : ہے عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اے پیغمبر ڈرتے رہو آپ اللہ سے اور (دین کے بارے میں) کبھی بات نہیں ماننی کافروں اور منافقوں کی بیشک اللہ (سب کچھ) جانتا بڑا ہی حکمت والا ہے
1 لفظِ " نبی " کا معنیٰ و مفہوم اور ایک مغالطے کا جواب : بعض لوگوں نے نبی کا ترجمہ کیا ہے " اے غیب کی خبر بتانے والے " تاکہ اس طرح وہ اس لفظ کریم ۔ نبی ۔ سے علم غیب کلی کے اپنے شرکیہ عقیدے کے لئے دلیل کشید کرسکیں۔ سو یہ ان کی اپنی ذہنی اختراع اور ایجاد بندہ ہے۔ ورنہ لفظِ " نبی " تو اردو میں بھی ایسا مشہور و معروف لفظ ہے کہ اس کے ترجمہ کی سرے سے کوئی ضرورت ہی نہیں۔ اور اگر کیا بھی جائے تو " پیغمبر " اور " پیامبر " وغیرہ کے کسی مترادف لفظ سے کیا جاتا ہے۔ اسی لئے جمہور علماء و مفسرین کرام میں سے کسی بھی ثقہ عالم و مفسر نے آج تک اس لفظ کا اس طرح کا کوئی ترجمہ اپنی تفسیر میں نہیں کیا۔ اس طرح یہ بھی ایک ایسی بدعت ہے جس کا ارتکاب موصوف اینڈ کمپنی ہی کے حصے میں آیا ہے ورنہ اس سے پہلے جمہور امت میں سے کسی بھی ثقہ مفسر نے لفظ نبی کا اس طرح کا کوئی ترجمہ نہیں کیا۔ اور اسلامی تاریخ کی پوری چودہ صدیوں میں اس کی دوسری کوئی نظیر و مثال شاید ہی کہیں سے مل سکے ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور یوں نبی و رسول اصطلاحی الفاظ ہیں۔ اور اصطلا حی الفاظ کا ترجمہ نہیں کیا جاتا۔ اور اگر کسی دوسری زبان میں ترجمہ کیا بھی جائے تو اسی کے کسی مترادف لفظ سے کیا جاتا ہے۔ جیسے " پیغمبر " وغیرہ۔ نیز ایسے اصطلاحی الفاظ منقول شرعی کہلاتے ہیں۔ اور منقول شرعی میں اس کا اصل اور لغوی معنی متروک ہوجاتا ہے۔ جیسا کہ حضرات اہل علم کے یہاں معروف اور مشہور ہے۔ لیکن اگر سب کے باوجود مذکورہ بالا لوگوں نے لفظ " نبی " کا ترجمہ اس طرح کیا تاکہ اسطرح وہ اپنے شرکیہ عقائد کے لئے دلیل کشید کرسکیں مگر اس کے باوجود یہ کوشش ان کے لئے مفید مطلب نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ نبی اکرم ﷺ نے غیب کی جو بیشمار اور عظیم الشان خبریں دی ہیں ان کا نہ کسی نے کبھی انکار کیا اور نہ ہی کبھی کوئی انکار کرسکتا ہے بلکہ سارے دین کا تعلق ہی اپنی اصل اور بنیاد کے اعتبار سے عالم غیب اور اخبار غیبیہ سے ہے کہ توحید و رسالت، جنت و دوزخ، حشر و نشر اور حورو غلمان وغیرہ وغیرہ جیسے تمام اہم اور بنیادی امور و عقائد اور عظیم حقائق کا تعلق غیب ہی سے تو ہے جو ہر مومن پیغمبر کے سکھانے اور بتانے کے مطابق ہی جانتا اور مانتا ہے۔ اس لئے ان کے انکار کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا مگر اس کے باوجود اس سے علم غیب کلی ثابت نہیں ہوتا جو کہ اہل بدعت کا کہنا اور ماننا ہے کہ ایسے تمام امور جن کا تعلق پیغمبر کے منصب نبوت و رسالت سے نہیں ہوتا۔ اور وہ بےحد و حساب ہیں۔ وہ نہ تو پیغمبر کو بتائے گئے اور نہ ہی ان کے بتانے کی کوئی ضرورت تھی۔ اور قرآن و سنت میں اس حقیقت کا ذکر و تذکرہ جگہ جگہ اور طرح طرح سے فرمایا گیا ہے۔ اور کتنے ہی واقعات آپکی حیات مبارکہ میں ایسے پیش آئے جو قطعی طور پر اور پوری صراحت و وضاحت سے بتاتے ہیں کہ آپ ﷺ عالم غیب نہیں تھے۔ یہاں تک کہ آپ کو زہر تک کھلایا گیا جس سے آپ ﷺ کے ایک ساتھی کی موت بھی واقع ہوگئی اور خود آپ ﷺ کو آخر وقت تک اس زہر خورانی کا اثر محسوس ہوتا رہا۔ سو مطلق علم غیب جس کا تعلق منصب نبوت و رسالت سے ہے اس کا تو کسی کو انکار نہیں، مگر وہ اہل بدعت کا مقصد نہیں۔ اور کلی غیب جو کہ وہ ثابت کرنا چاہتے ہیں وہ اس لفظ کریم سے ثابت ہوتا نہیں کہ وہ خاصہ خداوندی ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ تو جو ثابت ہے وہ ان کو مفید نہیں۔ اور جس کے وہ قائل ہیں وہ اس سے ثابت ہوتا نہیں ۔ فَلا دَلِیْلَ وَلا اسْتَدلالَ وَبِاللّٰہِ العیاذ مِنْ کل سُوْئٍ وَّزَیْغٍ و انْحِرَافٍ وَّ ضَلالٍ ۔ اللہ ہر قسم کے زیغ و ضلال سے اپنے حفظ وامان میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 2 کفر و نفاق سے دین حق کا سمجھوتہ اور اشتراک ممکن نہیں : سو ارشاد فرمایا گیا اور صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا کہ " کبھی بات نہیں ماننی کفار و منافقین کی "۔ کفار و مشرکین نبی اکرم ﷺ سے کہتے تھے کہ ہم آپس میں صلح کرلیں تاکہ باہم سر پھٹول کی نوبت نہ آئے۔ آپ ہمارے معبودوں کو برا نہ کہیں ہم آپ کے معبود کو برا نہیں کہیں گے۔ یعنی کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی پر عمل کیا جائے ۔ { وَدُّوا ْ لَوْ تُدْہِنُ فَیُدْہِنُوْنَ } ۔ چناچہ اس ضمن میں کفار کا ایک وفد مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچا جس میں ابو سفیان بن حرب، عکرمہ بن ابوجہل اور متعب بن نصیر وغیرہ سرداران قریش شامل تھے۔ اور انہوں نے آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی یہی پیشکش دہرائی۔ مگر حق و باطل میں صلح صفائی اور باہمی اشتراک کا سوال ہی کیا پیدا ہوسکتا ہے۔ اس لئے اس موقع پر ان آیات کریمہ کو نازل فرما کر حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ نے ان لوگوں کے اس منصوبہ کی جڑ نکال دی اور شان نزول کا یہ قصہ تقریباً سب ہی معتبر تفاسیر میں موجود و مذکور ہے۔ مثلاً روح، معالم، قرطبی، خازن اور معارف وغیرہ وغیرہ۔ اور یہاں پر خطاب اگرچہ نبی اکرم سے ہے ﷺ مگر سنانا دراصل دوسروں کو ہے کہ اسطرح حق و باطل میں کسی اشتراک و آمیزش کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تاکہ اہل باطل کی ایسی امیدوں کی جڑ کٹ جائے اور اہل حق راہ حق پر اور پکّے ہوجائیں۔ اور اس طرز خطاب و تعبیر میں بلاغت کا یہ انداز و اسلوب کارفرما ہے کہ کافر و منکر اس لائق ہی نہیں کہ ان سے براہ راست خطاب کیا جاسکے۔ دوسرے اس میں بتقاضائے بلاغت قوت اور زور بیان زیادہ ہوتا ہے جو کہ اصل مطلوب ہے۔ بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ دین حق کا کفر و نفاق کے ساتھ کسی طرح کا کوئی امتزاج و اشتراک ممکن نہیں۔ یہ دونوں اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے ایک دوسرے کی ضد ہیں۔ نیز یہاں پر کفار و منافقین کا ایک ساتھ ذکر فرما کر اس حقیقت کو بھی واضح فرما دیا گیا کہ یہ دونوں اصل میں ایک ہی ہیں۔ اسلام دشمنی میں دونوں باہم متحد ہیں۔ دونوں کے درمیان فرق اگر ہے تو یہ کہ ان میں سے ایک کھلم کھلا دشمنی اور مخالفت کرتا ہے اور ایک اپنے نفاق کے پردے میں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اللہ ہمیشہ نفس و شیطان کے ہر مکر و فریب سے محفوظ اور اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 3 اللہ تعالیٰ کی صفت علم و حکمت حوالہ توکل علی اللہ کی دلیل کے طور پر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ " اللہ سب کچھ جانتا نہایت ہی حکمت والا ہے "۔ پس آپ اس کے بھروسے پر اور اسی پر توکل کرتے ہوئے اس کے ہر حکم وارشاد کی تعمیل کریں۔ اس لئے اس کا ہر حکم حکمت سے لبریز اور علم قطعی و کامل پر مبنی اور اس پر محیط و مشتمل ہوتا ہے جس کا کوئی بدل ممکن ہی نہیں ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ یہاں پر یہ امر بھی واضح رہے کہ اللہ پاک ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ نے پورے قرآن حکیم میں کہیں ایک بار بھی آنحصرت ﷺ کو آپ کے صریح نام نامی کے ساتھ نہیں پکارا ہے۔ یعنی کسی ایک مقام پر بھی آپ کو " یا محمد " کہہ کر خطاب نہیں فرمایا گیا بلکہ کسی وصف ہی سے پکارا گیا ہے جیسے " یا ایْھا الرّسول "، " یا ایھا النبی "، " یا ایھا المزمل " وغیرہ۔ جبکہ دوسرے انبیائے کرام ۔ علیھم الصلوۃ والسلام ۔ کو ان کے اسمائے گرامی سے پکار کر خطاب فرمایا ہے۔ مثلاً " یا آدم "، " یا نوح "، " یا ابراہیم "، " یا موسیٰ "، " یا عیسیٰ "، " یا زکریا "، " یا یحییٰ " وغیرہ۔ سو اس میں جہاں ایک طرف آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کی تعظیم و تکریم اور عظمت مقام و رفعت شان کا اشارہ ہے وہیں دوسری طرف یہ درس بھی اسمیں موجود ہے کہ صریح نام سے پکارنا ادب کے تقاضوں کے خلاف اور ایک طرح کا گنوار پن ہے ۔ والعیاذ باللہ من کل سوء و شر۔ مگر برا ہو جہالت اور ہٹ دھرمی کا کہ ان عظیم الشان تعلیمات کے باوجود آج کا جاہل مسلمان اور کلمہ گو مشرک اپنی پنجابی نظم میں پوری ہٹ دھرمی سے کہتا ہے، اور اعلانیہ اور فخریہ کہتا ہے کہ ۔ " اسیں یا محمد کہندے رہنا اے " ۔ یعنی دین خواہ کچھ کہے اور دینی تعلیمات کا تقاضا خواہ کچھ ہو ہم نے تو یا محمد کہتے ہی رہنا ہے۔ سو کیسی جرات و ہٹ دھرمی اور کس قدر جہالت و غباوت ہے یہ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ والی اللہ المشتکی وھو المستعان ۔ بہرکیف یہاں پر اللہ تعالیٰ کے علم اور حکمت کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ دے کر آنحضرت ۔ ﷺ ۔ کے لیے توکل علی اللہ کی دلیل پیش فرما دی گئی کہ آپ کو سب سے بےخوف اور بےپروا ہو کر حق کی تبلیغ کرنی چاہیے کیونکہ جس اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے وہ علیم و حکیم ہے۔ اور اس کی ہر بات اور ہر حکم و ارشاد علم وحکمت پر مبنی ہے ۔ سبحانہ وتعالیٰ ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ راہ حق و صواب پر مستقیم اور ثابت قدم رکھے ۔ آمین۔
Top