Tafseer-e-Madani - An-Nisaa : 104
وَ لَا تَهِنُوْا فِی ابْتِغَآءِ الْقَوْمِ١ؕ اِنْ تَكُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّهُمْ یَاْلَمُوْنَ كَمَا تَاْلَمُوْنَ١ۚ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰهِ مَا لَا یَرْجُوْنَ١ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ عَلِیْمًا حَكِیْمًا۠
وَلَا تَهِنُوْا : اور ہمت نہ ہارو فِي : میں ابْتِغَآءِ : پیچھا کرنے الْقَوْمِ : قوم (کفار) اِنْ : اگر تَكُوْنُوْا تَاْ لَمُوْنَ : تمہیں دکھ پہنچتا ہے فَاِنَّھُمْ : تو بیشک انہیں يَاْ لَمُوْنَ : دکھ پہنچتا ہے كَمَا تَاْ لَمُوْنَ : جیسے تمہیں دکھ پہنچتا ہے وَتَرْجُوْنَ : اور تم امید رکھتے ہو مِنَ : سے اللّٰهِ : اللہ مَا لَا : جو نہیں يَرْجُوْنَ : وہ امید رکھتے وَكَانَ : اور ہے اللّٰهُ : اللہ عَلِيْمًا : جاننے والا حَكِيْمًا : حکمت والا
اور تم ہمت مت ہارو (اے مسلمانو ! ) اس (دشمن) قوم کا پیچھا کرنے میں اگر تمہیں کوئی بھی تکلیف پہنچتی ہے تو (کیا ہوا ؟ آخر) وہ بھی تو تکلیف اٹھاتے ہیں جیسے تم لوگ اٹھاتے ہو اور (مزید یہ کہ) تم امید رکھتے ہو اللہ سے ان چیزوں کی جن کی امید وہ نہیں رکھتے3، اور اللہ سب کچھ جانتا، بڑا ہی حکمت والا ہے
278 دنیا میں تکلیف سب ہی کو پہنچتی ہے : مومن کو بھی اور کافر کو بھی۔ سو ایمان والوں کو خطاب کر کے ارشاد فرمایا گیا کہ اگر تم لوگوں کو تکلیف پہنچتی ہے تو کیا ہو وہ بھی تو تکلیف اٹھاتے ہیں جیسے تم اٹھاتے ہو کہ قتل ہوتے ہیں، زخمی ہوتے ہیں، طرح طرح کی مشقتیں اٹھاتے ہیں، حالانکہ نہ انہیں کوئی اجر، نہ ثواب، کہ وہ کفر و باطل پر ہیں۔ سو کافر کی تکلیفیں رائیگاں، بےمقصد اور بیکار جاتی ہیں۔ نہ اس کو ان کا کوئی اجر نہ ثواب، نہ صلہ نہ نتیجہ سوائے محرومی اور نقصان و خسران کے۔ جبکہ مومن کو اس کی ہر تکلیف اور مصیبت پر اجر وثواب ملتا ہے۔ اس کے گناہ معاف ہوتے ہیں اور ایسی ہر تکلیف اس کیلئے مغفرت سیئات اور رفع درجات کا ذریعہ بنتی ہے۔ سو مومن کیلئے کسی بھی صورت میں ناکامی ہی نہیں جبکہ کافر کیلئے ناکامی ہی ناکامی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو کفر و انکار دارین کی محرومی کا باعث اور ایمان و یقین کی دولت دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے ۔ فَزِدْنَا اَللّٰھُمَّ اِیْمَانًا وَّیَقِیِْناً - 279 اہل ایمان کی امتیازی شان کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ تکلیف تو تم لوگوں کو بھی پہنچتی ہے اور ان کو بھی مگر تم لوگ اللہ تعالیٰ کے یہاں سے ان چیزوں کی امید اور توقع رکھتے ہو جن کی وہ نہیں رکھتے۔ سو ایمان والوں کی شان بڑی عظیم ہے۔ کہ ان کی ہر حالت خیر ہی خیر ہے اور یہ شان اہل ایمان کے سوا اور کسی کی نہیں ہوسکتی۔ سو تم امید رکھتے ہو کہ دنیا میں فتح و نصرت، سچی عزت و ناموری، اور دین حق کی عظمت و سربلندی نصیب ہوگی اور آخرت میں جنت کی ان سدا بہار نعمتوں سے سرفرازی، جن کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا نہ کسی کان نے سنا اور نہ کسی دل پر ان کا گزر ہی ہوا۔ پس تمہیں تو ان لوگوں سے کہیں بڑھ کر صابر اور ثابت قدم ہونا چاہیئے، کہ تمہاری کوئی تکلیف بھی کسی طرح سے رائیگاں نہیں جاتی بلکہ تمہارے لیے اجر وثواب کا ذریعہ بنتی ہے۔ اور اس طرح تمہاری تکلیفیں تمہارے لیے کمائی کسب خیرات و برکات کا ذریعہ و وسیلہ بنتی ہیں۔ اور اس طرح مومن کی زندگی ایک پرامید اور باغ و بہار زندگی بن جاتی ہے اور یہ ایک نقد انعام ہوتا ہے جو مومن صادق کو اسی دنیا میں نصیب ہوتا ہے ۔ فالحمد للہ جل وعلا -
Top