Tafseer-e-Madani - Az-Zukhruf : 31
وَ قَالُوْا لَوْ لَا نُزِّلَ هٰذَا الْقُرْاٰنُ عَلٰى رَجُلٍ مِّنَ الْقَرْیَتَیْنِ عَظِیْمٍ
وَقَالُوْا : اور انہوں نے کہا لَوْلَا نُزِّلَ : کیوں نہیں نازل کیا گیا ھٰذَا الْقُرْاٰنُ : یہ قرآن عَلٰي رَجُلٍ : اوپر کسی شخص کے مِّنَ : سے الْقَرْيَتَيْنِ : دو بستیوں میں عَظِيْمٍ : عظمت والے ۔ بڑے
اور کہا کہ کیوں نہ اتارا گیا اس قرآن کو (مکہ اور طائف کی) ان دو بستیوں میں کے کسی بڑے شخص پر ؟
37 منکرین کی فریب کاری کا ایک اور نمونہ و مظہر : سو منکرین نے عوام کالانعام کو فریب دینے کے لیے کہا یہ قرآن ان دو بستیوں کے کسی بڑے آدمی پر کیوں نہیں اتارا گیا۔ اور " قریتین " سے مراد مکہ اور طائف ہیں۔ جیسا کہ روایات میں اس کی تصریح موجود ہے کہ " قریتین " سے یہاں پر مراد مکہ اور طائف ہی کی دو بستیاں ہیں۔ (ابن کثیر، جامع البیان اور صفوۃ التفاسیر وغیرہ) ۔ سو ان بدبختوں کا کہنا یہ تھا کہ اگر یہ کتاب واقعی اللہ ہی کی طرف سے نازل ہوئی ہے تو یہ مکہ یا طائف کے کسی بڑے سردار پر کیوں نہیں نازل کی گئی کہ مکہ اور طائف کی یہ دو بستیاں عربوں کے اشراف اور سادات کا مرکز تھیں۔ پشتہا پشت کی عربوں کی سیادت انہی لوگوں کو حاصل رہی ہے۔ اس لیے ان منکرین و مکذبین کا کہنا تھا کہ اگر اللہ تعالیٰ کو ایسی کوئی کتاب اتارنا ہوتی تو وہ یقینا اس کو انہی دو بستیوں کے کسی بڑے سردار پر اتارتا نہ کہ ایک ایسے شخص پر جو کہ غریب ابن غریب ہے۔ جسکی بات کو ماننے کیلئے امراء مشکل ہی سے تیار ہوں گے۔ سو ابنائے دنیا کے نزدیک معیار شرف و فضیلت دنیا کا متاع فانی اور حطام زائل ہی ہے۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ بہرکیف یہ منکرین کی فریب کاری کا ایک اور نمونہ اور مظہر تھا جو انہوں نے عوام الناس کو بیوقوف بنانے اور ان کو راہ حق و ہدایت سے پھیرنے اور محروم رکھنے کے لیے اختیار کیا تھا۔ سو منکرین حق اور سیاسی بازیگروں کا طریقہ ہمیشہ یہی رہا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ تعالیٰ ہمیشہ اور ہر اعتبار سے اپنی پناہ میں رکھے ۔ آمین ثم آمین۔ 38 ابنائے دنیا کی تنگ نظری اور مادہ پرستی کا ایک نمونہ و مظہر : سو اس سے ابنائے دنیا کی تنگ نظری اور مادہ پرستی کا ایک نمونہ و مظہر سامنے آتا ہے۔ اور یہ امر واضح ہوجاتا ہے کہ مادہ پرست لوگوں کے نزدیک معیار فضیلت اصل میں متاع دنیا ہے اور بس۔ سو ان کا کہنا تھا کہ یہ قرآن کسی بڑے دنیادار پر کیوں نہیں اتارا گیا جو دنیاوی مال و دولت اور ظاہری کرو فر سے سرفراز ہوتا۔ یہ کیا کہ یہ کلام ایک ایسے یتیم پر نازل ہوا ہے جس کے پاس نہ مال و دولت کی کوئی ریل پیل ہے اور نہ دنیاوی حکومت و سلطنت کا کوئی رعب داب۔ یعنی وہی بات کہ مادہ پرست انسان ہمیشہ مادئہ و معدہ ہی کے پیمانے سے سوچتا اور دیکھتا ہے۔ یہی بات کل تھی اور یہی آج ہے۔ سو اسی بنا پر کل کے ان منکرین نبوت کا کہنا تھا کہ اگر یہ کتاب اللہ ہی کی طرف سے ہوتی تو یہ ضرور مکہ یا طائف کے کسی بڑے دنیادار سردار پر اتاری جاتی۔ جیسے مکہ کے سردار ولید بن مغیرہ پر یا طائف کے سردار عروہ بن مسعود پر وغیرہ۔ (ابن کثیر، صفوۃ التفاسیر اور جامع البیان وغیرہ) ۔ یہ کیا کہ اس کو ایک ایسے یتیم پر اتارا گیا جس کے پاس نہ دنیاوی مال و دولت کے ٹھاٹھ باٹھ ہیں اور نہ جاہ و منصب کا کوئی امتیاز۔ تو ایسے میں ہم انکو خدا کا رسول کیسے مانیں اور ان کی پیروی کس طرح کریں ؟ وغیرہ وغیرہ۔ جبکہ دین حنیف کی تعلیمات مقدسہ کے مطابق اس دنیائے دوں کے چند ٹکے تو کیا یہ پوری دنیا بھی حضرت حق ۔ جل مجدہ ۔ کے نزدیک پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ ورنہ اللہ تعالیٰ کسی کافر کو پانی کا گھونٹ بھی نہ پلاتا۔ جیسا کہ صحیح حدیث میں صاف وصریح طور پر ارشاد فرمایا گیا ہے۔ سو اس سے مومن کی عظمت شان کا اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ جس دنیا کے کچھ ٹکوں کے لیے ابنائے دنیا جیتے اور مرتے ہیں وہ پوری دنیا مومن صادق کے نزدیک پرکاہ کے برابر بھی نہیں۔ سو اصل دولت ایمان و یقین کی دولت ہے اور اصل اور حقیقی کامیابی آخرت ہی کی کامیابی ہے جو کہ کامل و سدابہار اور ابدی و دائمی کامیابی ہے ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین۔
Top