Tafseer-e-Madani - An-Najm : 52
وَ قَوْمَ نُوْحٍ مِّنْ قَبْلُ١ؕ اِنَّهُمْ كَانُوْا هُمْ اَظْلَمَ وَ اَطْغٰىؕ
وَقَوْمَ نُوْحٍ : اور قوم نوح کو مِّنْ قَبْلُ ۭ : اس سے قبل اِنَّهُمْ : بیشک وہ كَانُوْا : تھے وہ هُمْ اَظْلَمَ : وہ زیادہ ظالم وَاَطْغٰى : اور زیادہ سرکش
اور قوم نوح کو بھی اس سے پہلے (اس نے تباہ کردیا) کہ بیشک یہ سب ہی بڑے ظالم اور سخت سرکش لوگ تھے
[ 64] ظلم اور سرکشی کا نتیجہ و انجام ہلاکت و تباہی۔ والعیاذ باللّٰہ : چناچہ ماضی کی ان مختلف قوموں کی ہلاکت و تباہی کے ذکر وبیان کے بعد ان کے بارے میں ارشاد فرمایا گیا کہ یہ سب ہی لوگ بڑے ظالم اور سرکش تھے، سو اس سے اس اہم اور بنیادی حقیقت کو واضح فرما دیا گیا کہ ظلم اور سرکشی کا نتیجہ و انجام تباہی و ہلاکت کے سوا کچھ نہیں ہے۔ چناچہ اس حقیقت کی توضیح کے طور پر ارشاد فرمایا گیا اور قوم نوح کو بھی اس سے پہلے۔ یعنی ان کو بھی قوم عاد وثمود سے پہلے ہلاک کیا گیا۔ کیونکہ انہوں نے بھی اسی جرم ظلم و سرکشی کا ارتکاب کیا تھا بلکہ اس ظلم و انکار کی بنیاد دراصل انہوں نے ہی ڈالی تھی اسلئے ان کا صفایا بھی بڑے ہی ہولناک طریقے سے کیا گیا اور دوسرے اس لئے کہ انہوں نے حضرت نوح (علیہ السلام) جیسے جلیل القدر پیغمبر کی ساڑھے نو سو برس کی شبانہ روز تبلیغ کے باوجود حق کو مان کر نہ دیا تھا، بلکہ روایات کے مطابق ان میں سے ایک شخص مرتے وقت اپنی اولاد کو یہ وصیت کرکے مرتا تھا کہ نوح کی باتوں میں نہیں آنا، اس طرح وہ لوگ نسل در نسل کفر و طغیان ہی پر چلتے گئے، یہاں تک کہ جب ان سے اصلاح و خیر کی کوئی توقع باقی نہ رہی، تو حضرت نوح (علیہ السلام) نے اپنے رب سے دعا کی کہ اے میرے رب ان میں سے اب کسی کو بھی روئے زمین پر زندہ نہ چھوڑ، { رب لا تذر علی الارض من الکفرین دیاراً } [ نوح : 26] سو ان پر جو تباہی آئی تو اللہ نے ان لوگوں پر کوئی ظلم نہیں کیا تھا، بلکہ یہ سب لوگ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم ڈھانے والے تھے، کیونکہ یہ بڑے ظالم اور سرکش لوگ تھے، والعیاذ باللّٰہ جل وعلا بکل حال من الاحوال،
Top