Tafseer-e-Madani - Al-Hashr : 21
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
لَوْ اَنْزَلْنَا : اگر ہم نازل کرتے هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن عَلٰي جَبَلٍ : پہاڑ پر لَّرَاَيْتَهٗ : تو تم دیکھتے اس کو خَاشِعًا : دبا ہوا مُّتَصَدِّعًا : ٹکڑے ٹکڑے ہوا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے خوف سے وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کیلئے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کریں
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو تم اسے دیکھتے کہ وہ بھی دبا جارہا ہے اور پھٹا پڑ رہا ہے اللہ کے خوف سے اور یہ مثالیں ہم بیان کرتے ہیں لوگوں کے لئے تاکہ وہ غور و فکر سے کام لیں1
[ 56] قرآن حکیم کی عظمت شان کا ذکر وبیان : سو اس سے قرآن حکیم کی عظمت شان کی توضیح کے لئے ایک موثر اور بلیغ تمثیل بیان فرمائی گئی، چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر بھی اتار دیتے اور اس میں فہم و ادراک پیدا کرکے اس کو مکلف کردیتے، جیسا کہ انسان کو کیا ہے، تو وہ پہاڑ بھی خوف و خشیت خداوندی سے پھٹ پڑتا، اور پاش پاش ہوجاتا، لیکن تم لوگ اے منکرو ! اور منافقو ! ایسے سنگدل ہو کہ تم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، سو ارشاد میں منکرین و منافقین اور ان کے منکرانہ اور منافقانہ رویے پر زجر و ملامت ہے کہ جہاں تک تعلیم و تذکیر اور اتمام حجت کا تعلق ہے، حضرت حق جل مجدہ نے تمہارے لئے اس میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، اور اس سلسلے میں اس نے تمہارے لیے قرآن حکیم جیسی کامل اور بےمثال کتاب اتاری جو اگر پہاڑ جیسی کسی سخت اور بےحس چیز پر اتاری جاتی تو وہ بھی خشیت الٰہی سے سرافگندہ اور پاش پاش ہوجاتا مگر تم لوگ ہو کہ ٹس سے مس نہیں ہوتے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ [ 57] اللہ تعالیٰ کی خشیت اور اس کا تقاضا ؟: سوا رشاد فرمایا گیا کہ اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر اتار دیتے تو وہ بھی پھٹ پڑتا اللہ کے خوف و خشیت سے۔ اپنی تمام تر صلابت اور پختگی و مضبوطی کے باوجود، خواہ وہ ہمالیہ جیسا کوئی عظیم الشان پہاڑہی کیوں نہ ہو، کہ جبل کی تنکیر و تعیم سب کو عام اور شامل ہے، پس حیف ہے اس انسان پر جو اس عظیم الشان اور بےمثالکتاب مقدس سے متاثر نہ ہوا، والعیاذ باللّٰہ، سو اس ارشاد میں جیسا کہ ابھی اوپر گزرا منکرین و منافقین پر زجر و توبیج اور ان کی علامت ہے کہ جہاں تک تعلیم و تذکیر اور اتمام حجت کا تعلق ہے اس میں تو اللہ تعالیٰ نے تمہارے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی، لیکن تم لوگ ہو کہ تمہارے دل اس سے پھر بھی نہیں پسیجتے، اور تم پر اس کا کوئی اثر نہیں ہوتا، آخر تم لوگوں کو کیا ہوگیا ہے، تمہاری آنکھیں کب کھلیں گی ؟ اور تم لوگ کونسے کلام پر ایمان لاؤگے ؟ { دبای حدیث م بعدہ یؤمنون } [ المرسلات : 51 پ 29] سو غفلت کا زنگ ایسا ہولناک زنگ ہے جو انسانوں کے دلوں کو پتھروں جیسا بلکہ اس سے بھی زیادہ سنگدل بنا دیتا ہے۔ جس کے بعد حق بات ان کے دلوں میں اثر نہیں کرتی، اور وہ کچھ سننے، ماننے، کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ والعیاذ باللّٰہ جل وعلا۔ اللّٰہم فھذہ نواصینا بین یدیک فخذنا بھا الیٰ ما فیہ حبک ورضاک، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، یاذالجلال والاکرام۔ [ 58] غور و فکر ایک اہم مقصد و مطلب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم لوگوں کے لئے یہ مثالیں بیان کرتے ہیں تاکہ وہ غور وفکر سے کام لیں۔ اور مخلوق میں غور و فکر سے کام لے کر یہ لوگ حضرت خالق جل مجدہ کی عظمت و وحدانیت کی معرفت کے نور سے اپنے دلوں کی دنیا کو آباد ومنور کریں۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ تمثیلیں ہم اس لیے بیان کرتے ہیں کہ تاکہ لوگ اپنے حال پر غور کریں اور اپنے حال و مآل کی اصلاح کی راہ کو اپنائیں، تاکہ اس طرح ان کا دنیا میں بھی بھلا ہو سکے، اور آخرت میں بھی، وباللّٰہ التوفیق۔ مگر مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ لوگ غور و فکر سے کام لیتے ہی نہیں۔ الا ماشاء اللّٰہ۔ اکثر لوگوں کو حال یہ ہے کہ ان کی عقل و فکر اور سوچ و بچار کی تک و دو کا محور و مرکز ان کی بطن و فرج کی خواہشات ہی کی تکمیل ہوتا ہے اور بس۔ مادہ و معدہ کے تقاضوں سے آگے سوچنا ان کو نصیب ہی ہوتا۔ { ذلک مبلغھم من العلم } اس سے آگے کیلئے ان کی سوچ و بچار کی آنکھ اٹھتی ہی نہیں پھر ایسوں کو حق اور ہدایت کا نور ملے تو کیسے ؟ اور ان کو راہ حق نصیب ہو کس طرح اور کیونکر ؟ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ من کل زیغ و ضلال،
Top