Anwar-ul-Bayan - Al-Hashr : 21
لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَیْتَهٗ خَاشِعًا مُّتَصَدِّعًا مِّنْ خَشْیَةِ اللّٰهِ١ؕ وَ تِلْكَ الْاَمْثَالُ نَضْرِبُهَا لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَفَكَّرُوْنَ
لَوْ اَنْزَلْنَا : اگر ہم نازل کرتے هٰذَا الْقُرْاٰنَ : یہ قرآن عَلٰي جَبَلٍ : پہاڑ پر لَّرَاَيْتَهٗ : تو تم دیکھتے اس کو خَاشِعًا : دبا ہوا مُّتَصَدِّعًا : ٹکڑے ٹکڑے ہوا مِّنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۭ : اللہ کے خوف سے وَتِلْكَ : اور یہ الْاَمْثَالُ : مثالیں نَضْرِبُهَا : ہم وہ بیان کرتے ہیں لِلنَّاسِ : لوگوں کیلئے لَعَلَّهُمْ : تاکہ وہ يَتَفَكَّرُوْنَ : غور وفکر کریں
اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کرتے تو اے مخاطب تو اسے دیکھتا کہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا اور یہ مضامین عجیبہ ہم لوگوں کے لئے بیان کرتے ہیں تاکہ وہ فکر کریں۔
قرآن مجید کی صفت جلیلہ : اس کے بعد فرمایا ﴿ لَوْ اَنْزَلْنَا هٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰى جَبَلٍ لَّرَاَيْتَهٗ ﴾ (الآیۃ) اگر ہم اس قرآن کو کسی پہاڑ پر نازل کردیتے تو اے مخاطب تو اسے اس حال میں دیکھتا کہ یہ اللہ کے خوف سے دب جاتا اور پھٹ جاتا) صاحب روح المعانی (صفحہ 61: ج 28) اس کی تفسیر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس سے انسان کی قساوت قلبی اور تلاوت قرآن کے وقت خشوع و تدبر کی کمی پر متنبہ کیا ہے قرآن میں جو جھنجھوڑنے والی آیات ہیں انسان ان کی طرف دھیان نہیں دیتا حالانکہ اگر یہی قرآن کسی پہاڑ پر اتارا جاتا اور اسے عقل دے دی جاتی تو وہ خشوع اختیار کرتا اور پھٹ جاتا۔ صاحب معالم التنزیل (صفحہ 236: ج 4) نے یہ بات بھی لکھی ہے اور یہ بات بڑھادی ہے کہ پہاڑ اپنی سختی کے باوجود اس ڈر سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاتا کہ قرآن کریم کا جو حق اللہ تعالیٰ نے لازم فرمایا ہے وہ مجھ سے ادا نہ ہو سکے گا۔ یہ انسان ہی ہے جو قرآن کو پڑھتا ہے اور سنتا ہے اور اس کی ذمہ داری کو محسوس نہیں کرتا حالانکہ یہ مضامین عجیبہ اللہ تعالیٰ اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ لوگ فکر کریں۔ ولا حاجة ان یفرض ترکب العقل فیہ لان الجبال فیھا ادراک کما ذکر اللہ تعالیٰ فی آخر سورة الاحزاب ” فَاَبَيْنَ اَنْ يَّحْمِلْنَهَا وَ اَشْفَقْنَ مِنْهَا وَ حَمَلَهَا الْاِنْسَانُ “ وقال تعالیٰ فی سورة البقرة : ” وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَآءُ 1ؕ وَ اِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّٰهِ ۔ “
Top