Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 116
قَالَ اَلْقُوْا١ۚ فَلَمَّاۤ اَلْقَوْا سَحَرُوْۤا اَعْیُنَ النَّاسِ وَ اسْتَرْهَبُوْهُمْ وَ جَآءُوْ بِسِحْرٍ عَظِیْمٍ
قَالَ : کہا اَلْقُوْا : تم ڈالو فَلَمَّآ : پس جب اَلْقَوْا : انہوں نے ڈالا سَحَرُوْٓا : سحر کردیا اَعْيُنَ : آنکھیں النَّاسِ : لوگ وَاسْتَرْهَبُوْهُمْ : اور انہیں ڈرایا وَجَآءُوْ بِسِحْرٍ : اور وہ لائے عَظِيْمٍ : بڑا
تو موسیٰ نے (کمال اطمینان سے) جواب دیا کہ تم ہی ڈال لو، پھر جب انہوں نے ڈال دیا (جو کچھ کہ ان کو ڈالنا تھا) تو انہوں نے مسحور کردیا لوگوں کی نگاہوں کو، اور خوفزدہ کردیا ان (کے دلوں) کو، اور (واقعتا) وہ لوگ ایک بڑا (ہی ہولناک) جادو لائے تھے،4
148 جادوگری فریب نظرکا سامان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے مسحور کردیا لوگوں کی نگاہوں کو۔ یعنی ان رسیوں اور لاٹھیوں کی حقیقت و ماہیت تبدیل نہیں ہوگئی تھی بلکہ ان لوگوں نے جادو کے زور سے صرف نظربندی کردی تھی جو کہ ضرب حق سے جاتی رہی۔ سو جادوگری محض ایک فریب نظر ہوتا ہے جو جادوگر اپنی چابکدستی سے دکھاتے ہیں ورنہ اصل میں اس میں کسی شئے کی حقیقت تبدیل نہیں ہوتی۔ سو ۔ { سَحَرُوْا اَعْیُنَ النَّاسِ } ۔ سے یہ بات نکلتی ہے کہ جادو خواہ کتنا ہی بڑا ہو اس سے کسی شئے کی حقیقت اور ماہیت نہیں بدلتی۔ بلکہ اس سے محض دیکھنے والوں کی آنکھوں اور ان کی قوت متخیلہ پر اثر پڑتا ہے جس سے انسان کو یوں خیال گزرنے لگتا ہے اور اس کو یوں محسوس ہونے اور دکھنے لگتا ہے کہ یہ چیز اسی طرح ہے جس طرح کہ جادوگر اس کو دکھانا چاہتا ہے۔ ورنہ وہ چیز حقیقت میں ویسی ہوتی نہیں۔ سو جادو کا تعلق صرف انسان کی نظر اور اس کے خیال سے ہوتا ہے، جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے فرمایا ۔ { یُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی } ۔ (طٰہٓ: 66) ۔ یعنی ان لوگوں کی جادوگری کے زور سے موسیٰ کو یوں خیال ہونے لگا کہ وہ رسیاں اور لاٹھیاں ہلتی اور چلتی ہیں۔ 149 جادوگری کا بڑا خوفناک مظاہرہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ انہوں نے مسحور کردیا لوگوں کی نگاہوں کو اور واقعۃ وہ ایک بڑا ہی ہولناک جادو لائے تھے۔ سو وہ جادوگری کا بڑا خوفناک مظاہرہ تھا جس سے انہوں نے خوفزدہ کردیا عام لوگوں کو اپنی جادوگری کے زور اور اپنی نظر بندی کی چابکدستی سے۔ اور ظاہر ہے جہاں تیس ہزار جادوگر جمع ہوں اور ان میں سے ہر ایک کے پاس ایک لاٹھی بھی ہو اور رسی بھی۔ (معارف وغیرہ) ۔ اور ان کے جادو کے کرشمے سے وہ سب رسیاں اور لاٹھیاں سانپ بن کر ایک پورے علاقے کو بھر دیں تو اس کی ہولناکی کا کیا کہنا۔ سو اس سے لوگوں نے خوفزدہ ہونا ہی تھا کہ اس جادو کا مقابلہ آخر کون کرسکے گا ؟ اور باطل کا حال یہی ہوتا ہے کہ وہ پانی کے جھاگ کی طرح اٹھتا اور ابھرتا ہے اور پانی کے جوہر حیات آفرین پر چھا کر اس کو اپنے نیچے لے لیتا ہے۔ لیکن پھر کچھ ہی بعد وہ بیٹھ کر اور مٹ کر نیست و نابود ہوجاتا ہے اور پانی کا جوہر حیات آفریں لوگوں کی نفع رسانی کے لئے جوں کا توں باقی رہتا ہے اور دنیا کو طرح طرح کے حیات آفریں اور سدا بہار فائدوں سے نوازتا ہے۔ سو اصل اور حقیقی غلبہ حق ہی کا مقدر ہے اور اس کے مقابلے میں باطل ہے ہی مٹنے والی چیز۔ والحمد للہ جل وعلا -
Top