Tafseer-e-Madani - Al-Anfaal : 16
وَ مَنْ یُّوَلِّهِمْ یَوْمَئِذٍ دُبُرَهٗۤ اِلَّا مُتَحَرِّفًا لِّقِتَالٍ اَوْ مُتَحَیِّزًا اِلٰى فِئَةٍ فَقَدْ بَآءَ بِغَضَبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ مَاْوٰىهُ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
وَمَنْ : اور جو کوئی يُّوَلِّهِمْ : ان سے پھیرے يَوْمَئِذٍ : اس دن دُبُرَهٗٓ : اپنی پیٹھ اِلَّا : سوائے مُتَحَرِّفًا : گھات لگاتا ہوا لِّقِتَالٍ : جنگ کے لیے اَوْ : یا مُتَحَيِّزًا : جا ملنے کو اِلٰي : طرف فِئَةٍ : اپنی جماعت فَقَدْ بَآءَ : پس وہ لوٹا بِغَضَبٍ : غصہ کے ساتھ مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَمَاْوٰىهُ : اور اسکا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ (ٹھکانہ)
اور یاد رکھو کہ جس نے پیٹھ دکھائی ان کو سوائے اس کے کہ وہ جنگ ہی کے لئے کوئی پینترا بدلتا ہو، یا اپنی فوج کے سوا کسی دوسرے دستے سے ملنا چاہتا ہو تو وہ یقیناً لوٹا اللہ کے بھاری غضب کے ساتھ، اس کا ٹھکانہ دوزخ ہے، اور بڑا ہی برا ٹھکانہ ہے وہ
22 میدان کارزار سے پیٹھ دینے کی دو جائز صورتوں کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ میدان جنگ میں پیٹھ دینا جائز نہیں بجز اس کے کہ کوئی جنگ ہی کے لیے پینترا بدلتا ہو یا وہ اپنی فوج کے کسی دستے سے ملنا چاہتا ہو۔ ایسوں پر کوئی الزام اور مواخذہ نہیں کہ یہ دراصل بھاگنا نہیں بلکہ جنگ ہی کا ایک تقاضا اور اس کا ایک حصہ ہے کہ پینترے بدلنا جنگ کے ان اہم تقاضوں میں سے ہے جس کے مطابق مجاہد میدان جہاد میں کام لیتا ہے اور اپنی جنگی حکمت عملی کی بناء پر اپنا مورچہ بدلتا اور اپنے وار کا رخ تبدیل کرتا ہے۔ بہرکیف اگر کوئی سپاہی کسی جنگی تدبیر کی بناء پر اپنے مورچے سے ہٹ کر کسی اور مورچے کا رخ کرتا ہے یا وہ جنگی حکمت عملی کی بناء پر کسی اور فوجی دستے میں شامل ہونے کی غرض سے اپنا مورچہ چھوڑتا ہے وہ اس وعید میں نہیں آتا وہ اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کا تعلق فرار من الزحف سے نہیں بلکہ جنگی حکمت عملی سے ہے۔ ممنوع و حرام وہ پیٹھ دینا ہے جو کہ فرار کی نوعیت کا ہو ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہ دو صورتیں میدان جنگ سے پھرنے یا ہٹنے کی جائز صورتیں ہیں۔
Top