Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 1
بَرَآءَةٌ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۤ اِلَى الَّذِیْنَ عٰهَدْتُّمْ مِّنَ الْمُشْرِكِیْنَؕ
بَرَآءَةٌ : بیزاری (قطعِ تعلق) مِّنَ : سے اللّٰهِ : اللہ وَرَسُوْلِهٖٓ : اور اس کا رسول اِلَى : طرف الَّذِيْنَ : وہ لوگ جنہوں نے عٰهَدْتُّمْ : تم سے عہد کیا مِّنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرکین
دست برداری کا اعلان ہے، اللہ اور اس کے رسول کی طرف سے، ان مشرکوں کو، جن سے تم نے معاہدہ کر رکھا تھا،2
1 سورة توبہ کی وجہ تسمیہ اور اس کی عظمت شان : اس سورة کریمہ کا نام " براءۃ " بھی ہے کہ اسی لفظ سے یہ شروع ہوتی ہے اور اسمیں مشرکین مکہ سے براءت و بیزاری کا اعلان بھی ہے۔ اور اس کو " توبہ " بھی کہتے ہیں کہ اس میں توبہ کا تذکرہ بھی کئی بار آیا ہے اور توبہ سے متعلق ایک خاص عبرت انگیز اور سبق آموز واقعہ اور قصہ بھی اس میں مذکور ہے۔ اس کے علاوہ اس سورة کریمہ کے اور بھی بہت سے نام آئے ہیں۔ مثلاً " فاضحہ "، " مخزیۃ "، " مشردۃ " اور سورة " العذاب " وغیرہ۔ اس کی مزید تفصیلات انشاء اللہ اپنی مفصل تفسیر میں پیش کی جائیں گی ۔ والتوفیق بید اللہ ۔ سو یہ اس سورة کریمہ کی عظمت شان کا ایک مظہر ہے۔ اس کے شروع میں بسم اللہ اس لئے نہیں لکھی جاتی کہ آنحضرت ۔ ﷺ ۔ سے ثابت نہیں۔ اور قرآن پاک کی ترتیب توقیفی ہے کہ جیسا اللہ پاک کی طرف سے حضرت جبریل امین کے واسطے سے حکم ہوتا تھا، اسی کے مطابق آنحضرت ﷺ عمل فرماتے تھے۔ اور یہاں پر جبریل امین نے اس کی ہدایت نہیں فرمائی تھی۔ اس لئے بسم اللہ نہیں لکھی گئی۔ اور مستدرک حاکم میں حضرت علی ۔ ؓ ۔ سے مروی ہے کہ سورة توبہ کے شروع میں بسم اللہ اس لئے نہیں لکھی گئی کہ بسم اللہ امان کی نشانی ہے، جبکہ اس سورة کریمہ میں رفع امان کا حکم ہے۔ (روح، ابن کثیر، قاسمی وغیرہ) ۔ مگر یہ ایک تفسیری نکتہ ہوسکتا ہے نہ کہ اصل وجہ اور علت۔ اصل وجہ تو وہی ہے جو کہ اوپر بیان کی گئی۔ اور یہ سورة کریمہ غزوئہ تبوک سے واپسی پر آنحضرت ۔ ﷺ ۔ پر نازل ہوئی جبکہ آپ ﷺ نے حضرت صدیق اکبر۔ ؓ ۔ کو حج کا امیر بنا کر بھیجا تھا۔ بعد میں آپ ﷺ نے حضرت علی ۔ ؓ ۔ کو بھیجا کہ آپ ؓ جا کر یہ آیتیں مشرکین کو سنا دیں۔ حضرت علی ؓ کے پہنچنے پر حضرت ابوبکر ؓ نے ان سے پوچھا کہ آپ امیر بن کر آئے ہیں یا مامور بن کر ؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ نہیں بلکہ مامور بن کر۔ چناچہ آپ ؓ نے حضرت صدیق اکبر ؓ کی امارت میں مشرکین مکہ کو یہ آیات پڑھ کر سنائیں جن میں معاہدئہ صلح کے خاتمے کا اعلان ہے۔ اور اس کے ساتھ ہی ان کو مزید یہ سنایا کہ کوئی مشرک جنت میں داخل نہیں ہوگا۔ نیز آئندہ نہ تو کوئی مشرک بیت اللہ کا حج کرسکے گا اور نہ ہی کسی کو ننگا ہو کر طواف کرنے کی اجازت ہوگی ۔ جیسا کہ مشرکین عرب کا قدیم زمانے سے یہ دستور چلا آ رہا تھا ۔ سو اس واقعہ میں خلافت صدیق اکبر ؓ کی گویا تصریح فرما دی گئی۔ لہذا روا فض کا حضرت علی ۔ ؓ ۔ کو خلیفہ بلا فصل کہنا باطل اور مردود ہے۔ 2 اِعلان براءت کی نسبت رسول کی طرف باعتبار تبلیغ کے : سو یہ اعلان تو اصل میں اللہ پاک کی طرف سے ہی ہے مگر چونکہ اس کے پہنچانے والے اور اللہ پاک کی طرف سے اس کا اعلان فرمانے والے آپ کے رسول ہی ہیں ﷺ اس لئے اس کی نسبت دونوں کی طرف فرمائی گئی ہے۔ اور آنحضرت ﷺ کے انتقال و وصال کے بعد اس طرح کہنا درست نہیں جیسا کہ احادیث کریمہ میں مصرح ہے۔ لہذا اہل بدعت وغیرہ اہل ھوی کا اس سے اپنے شرکیہ الفاظ کے لئے استدلال کرنا صحیح نہیں کہ یہ قیاس مع الفارق اور اصول و نصوص کے معارض و متصادم ہے۔ (المراغی وغیرہ) ۔ بہرکیف اس طرح اعلان فرما دیا گیا کہ مشرکین کے ساتھ کیے گئے تمام عہد منسوخ ہیں اور اس اعلان براءت کی وجہ ۔ جیسا کہ آگے آیت نمبر 3 میں ارشاد فرمایا جا رہا ہے ۔ یہ تھی کہ بہت سے قبائل اپنے معاہدات کی ذمہ داریوں کو وفاداری اور راستبازی کے ساتھ نباہ نہیں رہے تھے۔ اس لیے اس قسم کے معاہدات کے کالعدم ہونے کا اعلان کردیا گیا۔ صرف ان قبائل کے معاہدات کو باقی رکھا گیا جنہوں نے کوئی غداری یا عہد شکنی نہیں کی تھی۔ اور وہ بھی صرف ان کی مقررہ مدت تک کے لیے۔ اور یہاں پر لفظ براءت کے بعد حرف " الی " آیا ہے جو اس بات کی دلیل ہے کہ اس ارشاد میں ابلاغ کا مفہوم بھی مضمر ہے۔ یعنی اس براءت و دستبرداری کی اطلاع تمام ناقض عہد مشرکوں کو پہنچادی جائے جیسا کہ بعد والی آیت کریمہ میں اس کی تصریح بھی آرہی ہے۔
Top