Madarik-ut-Tanzil - Maryam : 62
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا١ؕ وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے فِيْهَا : اس میں لَغْوًا : بےہودہ اِلَّا سَلٰمًا : سوائے سلام وَلَهُمْ : اور ان کے لیے رِزْقُهُمْ : ان کا رزق فِيْهَا : اس میں بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
وہ اس میں سلام کے سوا کوئی بیہودہ کلام نہ سنیں گے اور ان کے لئے صبح وشام کھانا تیار ہوگا
62: لَایَسْمَعُوْنَ فِیْھَا (وہ لوگ اس میں نہیں سنیں گے) یعنی جنت میں لَغْوًا (کوئی فضول بات) یعنی فحش یا جھوٹ یا فضول کلام لغو اس کو کہا جاتا ہے جس کو کلام میں سے نکال دیا جائے۔ نحو : اس میں متنبہ کردیا کہ لغو سے پرہیز کرنا اور بچنا لازم ہے اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس گھر کو لغو سے پاک قرار دیا جس میں کوئی تکلیف نہیں۔ اِلَّا سَلٰمًا (مگر سلام) یعنی وہ ملائکہ سے سلام سنیں گے (2) ایک دوسرے سے سلام سنیں گے (3) وہ اس میں کوئی ایسی بات نہ سنیں گے مگر وہ بات کہ جو عیب اور نقص سے پاک ہو جمہور علماء کے نزدیک یہ مستثنیٰ منقطع ہے۔ اور ایک اور قول کے مطابق سلام کا معنی سلامتی کی دعا ہے جبکہ دارالسلام کے رہنے والے سلامتی کی دعا سے مستغنی ہوں تو ظاہر کے اعتبار سے یہ بھی لغو بات میں شامل ہے اور فضول بات کا حصہ ہے اگر اس میں اکرام کا فائدہ نہ مانا جائے۔ وَّلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَابُکْرَۃًوَّ عَشِیًّا (اور اس میں ان کیلئے صبح و شام رزق ہوگا) یعنی ان کو ان کا رزق دنیا کے دن کی دونوں اطراف کی مقدار سے عطا کئے جائیں گے کیونکہ وہاں نہ رات ہے نہ دن وہ ہر وقت نور کے اندر رہیں گے دن کی مقدار وہ پردوں کے اٹھانے اور رات کی مقدار پردوں کے لٹکانے سے معلوم کریں گے صبح اور شام کا رزق اہل عرب کے ہاں افضل ترین زندگی کا حصہ ہے اس لئے اللہ تعالیٰ نے اپنی جنت کی اس سے تعریف فرمائی دوسرا قول یہ ہے کہ اس سے مراد رزق کا دوام ہے جیسے محاورہ میں کہتے ہیں : انا عند فلانٍ بکرۃ وعشیا کہ میں فلاں کے پاس صبح شام ہوتا ہوں مراد اس سے دوام ہوتا ہے۔
Top