Tafheem-ul-Quran - Maryam : 62
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا١ؕ وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے فِيْهَا : اس میں لَغْوًا : بےہودہ اِلَّا سَلٰمًا : سوائے سلام وَلَهُمْ : اور ان کے لیے رِزْقُهُمْ : ان کا رزق فِيْهَا : اس میں بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
وہاں وہ کوئی بےہُودہ بات نہ سُنیں گے،جو کچھ بھی سُنیں گے ٹھیک ہی سُنیں گے۔ 38 اور ان کا رزق انہیں پیہم صبح و شام ملتا رہے گا
سورة مَرْیَم 38 اصل میں لفظ " سلام " استعمال ہوا ہے جس کے معنی ہیں عیب اور نقص سے محفوظ۔ جنت میں نعمتیں انسان کو میسر ہوں گی ان میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہوگی کہ وہاں بیہودہ اور فضول گندی بات سننے میں نہ آئے گی۔ وہاں کا پورا معاشرہ ایک ستھرا اور سنجیدہ اور پاکیزہ معاشرہ ہوگا جس کا ہر فرد سلیم الطبع ہوگا۔ وہاں کے رہنے والوں کو غیبتوں اور گالیوں اور فحش گانوں اور دوسری بری آوازوں کی سماعت سے پوری نجات مل جائے گی۔ وہاں آدمی جو کچھ سنے گا۔ اور معقول اور بجا باتیں ہی سنے گا۔ اس نعمت کی قدر وہی شخص سمجھ سکتا ہے جو اس دنیا میں فی الواقع ایک پاکیزہ اور ستھرا ذوق رکھتا ہو۔ کیونکہ وہی یہ محسوس کرسکتا ہے کہ انسان کے لئے ایک ایسی گندی سوسائٹی میں رہنا کتنی بڑی مصیبت ہے جہاں کسی وقت بھی اس کے کان جھوٹ، غیب، فتنہ و فساد، گندگی اور شہوانیت کی باتوں سے محفوظ نہ ہوں۔
Top