Ruh-ul-Quran - Maryam : 62
لَا یَسْمَعُوْنَ فِیْهَا لَغْوًا اِلَّا سَلٰمًا١ؕ وَ لَهُمْ رِزْقُهُمْ فِیْهَا بُكْرَةً وَّ عَشِیًّا
لَا يَسْمَعُوْنَ : وہ نہ سنیں گے فِيْهَا : اس میں لَغْوًا : بےہودہ اِلَّا سَلٰمًا : سوائے سلام وَلَهُمْ : اور ان کے لیے رِزْقُهُمْ : ان کا رزق فِيْهَا : اس میں بُكْرَةً : صبح وَّعَشِيًّا : اور شام
بیشک اس کا وعدہ پورا ہو کے رہے گا۔ وہ اس جنت میں کوئی لغو بات نہیں سنیں گے، بس سلام سنیں گے، اس میں ان کے لیے صبح و شام رزق مہیا ہوگا۔
لاَ یَسْمَعُوْنَ فِیْھَا لَغْوًا اِلاَّ سَلٰمًا ط وََلَھُمْ رِزْقُھُمْ فِیْھَا بُکْرَۃً وَّعَشِیًّا۔ (مریم : 62) (وہ اس جنت میں کوئی لغو بات نہیں سنیں گے، بس سلام سنیں گے، اس میں ان کے لیے صبح و شام رزق مہیا ہوگا۔ ) جنت میں اہل جنت کو جو بیش بہا نعمتیں میسر آئیں گی آج تو ان کا تصور بھی ممکن نہیں لیکن قرآن و سنت سے ایسا ضرور معلوم ہوتا ہے کہ انسان کو وہاں وہ سب کچھ ملے گا، اس کا نفس جس کی خواہش کرے گا۔ اور یہ نعمت ایسی ہے جو دنیا میں ممکن نہیں کیونکہ بڑے سے بڑا حکمران بھی اپنی خواہشات کی تکمیل سے ہمیشہ عاجز رہتا ہے۔ جب کوئی شخص طاقت اور اقتدار میں بگٹٹ ہوجاتا ہے تو اس کا جی چاہتا ہے کہ میں تمام دنیا پر قابض ہوجاؤں اور تمام دنیا کے وسائل میری گرفت میں آجائیں۔ یہ اس کے نفس کا ایسا ارمان ہے جو ہمیشہ اس کے اندر مچلتا رہتا ہے، لیکن اس کی تکمیل کبھی نہیں ہوتی۔ لیکن وہاں ہر جنتی اس آسودگی سے بہرہ ور ہوگا۔ لیکن اس سے بھی بڑھ کر ایک اور نعمت بھی ہے جو بظاہر بہت معمولی سی ہے لیکن بالعموم انسان اس کے حصول سے عاجز رہتا ہے۔ وہ یہ ہے کہ وہ کبھی کوئی ایسی بات نہ سنے جو اسے ناگوار گزرے یا جسے لغو اور بیہودہ کہا جاسکے کیونکہ ہر چھوٹا بڑا آدمی تغیرات کی زد میں ہے۔ یہ انقلاب اس کے اندر بھی برپا رہتا ہے اور اس کے گردوپیش میں بھی۔ ہزار جتن کیا جائے یہ ممکن ہی نہیں ہوسکتا کہ کبھی کوئی ایسی آواز کان میں نہ پڑے جسے لغو کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں، اہل جنت اس نعمت سے بھی نوازے جائیں گے کہ جنت میں کبھی کوئی بول ان کے کانوں میں ایسا نہیں پڑے گا اور کوئی منظر ان کی آنکھوں کے سامنے ایسا نہیں آئے گا جو ان کی خوشیوں کو مکدر کردے۔ وہ جب بھی سنیں گے، سلامتی کی بات سنیں گے۔ اور جب بھی دیکھیں گے، سلامتی کا منظر دیکھیں گے۔ چونکہ ان کے چاروں طرف خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی اس لیے وہ ایک دوسرے سے ملتے ہوئے بھی ایک دوسرے کو سلام کہیں گے، یعنی مبارکباد دیں گے۔ وہ جدھر نکلیں گے فرشتے انھیں سلام کہیں گے اور مبارکباد دیں گے۔ اہلِ جنت کا رزق اور انھیں صبح و شام ان کا رزق دیا جائے گا۔ ان کے رزق سے مراد یقینا وہ غذا ہے جس کی اہل جنت کو طلب ہوگی، لیکن آج ہم یقینی طور پر نہیں کہہ سکتے کہ وہ غذا کیسی ہوگی۔ اگرچہ جنت میں پھلوں کا بھی ذکر کیا گیا ہے اور ان کے خوش ذائقہ ہونے کا بھی۔ اسی طرح دودھ اور شہد کی نہروں کا بھی تذکرہ ہے۔ لیکن یہ دودھ اور شہد اور یہ پھل اور فواکہ کیا دنیا جیسے ہوں گے ؟ یا اس کی حقیقت بھی روحانی ہوگی ؟ اس کی حقیقت تو جنت میں جا کے ہی کھلے گی۔ صاف اور سیدھی بات تو یہ ہے کہ جنت ایک ایسی جگہ ہے جہاں خوشیاں ہی خوشیاں ہوں گی اور ناگواری کا کوئی غبار بھی اڑ کر جنت میں داخل نہیں ہوسکے گا، لیکن جیسا کہ بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ انسان کا اصل رزق تو وہ ہے جو آسمانوں سے نازل ہوتا ہے۔ اس حوالے سے کہا جاسکتا ہے کہ ممکن ہے وہاں رزق کی صورت میں جو کچھ دیا جائے وہ برکاتِ الٰہی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی وہ تجلیات ہوں جو اہل جنت کی تمام ضرورتوں اور خوشیوں کا سامان بنیں۔ یہ جو کہا گیا ہے کہ صبح و شام اہل جنت کو رزق دیا جائے گا اس کا یہ مطلب تو ہرگز نہیں کہ جیسے ملازموں یا فوجیوں کے لیے کھانے کے اوقات مقرر ہوتے ہیں اور عموماً صبح شام ہی انھیں کھانا مہیا کیا جاتا ہے اور دوپہر کو اگر انھیں بھوک لگے تو بھوک برداشت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوتا۔ اس میں پہلی بات تو یہ ہے کہ یہ صبح و شام جنت کے ہیں جس کی حقیقت سے کوئی واقف نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ محاورۃً یہ بات کہی گئی ہو، تو محاورہ میں صبح شام سے دو متعین اوقات مراد نہیں ہوتے بلکہ اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انھیں ہر وقت رزق مہیا کیا جائے گا، جب وہ اس کی خواہش کریں گے۔
Top