Madarik-ut-Tanzil - Al-Ahzaab : 48
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَلَا تُطِعِ : اور کہا نہ مانیں الْكٰفِرِيْنَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافق (جمع) وَدَعْ : اور خیال نہ کریں اَذٰىهُمْ : ان کا ایذا دینا وَتَوَكَّلْ : اور بھروسہ کریں عَلَي اللّٰهِ ۭ : اللہ پر وَكَفٰى : اور کافی بِاللّٰهِ : اللہ وَكِيْلًا : کارساز
اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ ان کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور خدا پر بھروسہ رکھنا اور خدا ہی کارساز کافی ہے
48: وَلَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ (اور آپ کافروں اور منافقوں کی اتباع مت کیجئے) اس سے مراد اس حالت پر برانگیختہ کرنا اور دوام و ثبات پیدا کرنا ہے جس میں آپ تھے۔ وَدَعْ اَذٰھُمْ (اور ان کی طرف سے جو ایذاء پہنچے اس سے صرف نظر فرمائیں) اذیٰ بمعنی ایذاء ہے۔ نحو : نمبر 1۔ یہ بھی احتمال ہے کہ اس کی اضافت فاعل کی طرف ہو ای اجعل ایذائھم ایاک فی جانب ان کی ایذاء کو ایک طرف رکھ اور اس کی کوئی پرواہ مت کرو اور نہ ان کی ایذاء سے ڈرو۔ نمبر 2۔ اضافت مفعول کی طرف ہو۔ ای دع إیذاء ک إیّاھم مکافأۃ لھم۔ آپ ان کو بطور بدلہ ایذاء دینے کو رہنے دیجئے۔ وَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ (اور اللہ تعالیٰ پر بھروسہ کیجئے) وہ ان کے لئے کافی ہے۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا (اور اللہ تعالیٰ کی کارسازی کافی ہے) اس کی سپرداری کفایت کرنے والی ہے۔ ایک قول : یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کے پانچ اوصاف بیان فرمائے اور ان میں سے ایک کا مقابلہ ایک مناسب خطاب سے فرمایا مثلاً نمبر 1۔ شاہد کا مقابلہ وبشر المؤمنین سے کیونکہ آپ ﷺ امت پر شاہد ہونگے اور امت تمام امتوں پر شاہد ہوگی۔ اور یہ بہت بڑی فضیلت ہے نمبر 2۔ المبشر کا مقابلہ کفار و منافقین سے اعراض کرنے کے ساتھ کروایا کیونکہ جب ان سے اعراض کریں گے تو ایمان والوں کی طرف پورے طور پر متوجہ ہونگے اور بشارت کیلئے یہ بات مناسب ہے۔ نمبر 3۔ النذیر کا مقابلہ دع اذاھمؔ سے کیا کیونکہ جب وہ حاضر میں ان کی ایذاء کو چھوڑ دیں گے حالانکہ ایذاء کی جلدی سزا تو ضروری ہے۔ یا بدیر سزا۔ اور کفار کو مستقبل میں ملنے والی اس سزا سے ڈرایا گیا۔ نمبر 4۔ اور داعی الی اللہ کا تقابل تیسیر کے قول توکل علی اللہ کے ساتھ کیا۔ کیونکہ جو اللہ تعالیٰ پر توکل کرلیتا ہے اس پر ہر مشکل آسان ہوجاتی ہے۔ نمبر 5۔ سراج منیر کا تقابل اللہ تعالیٰ کی وکالت پر اکتفاء سے کیا گیا کیونکہ اللہ تعالیٰ جس کی دلیل کو تمام مخلوق پر روشن کردیں تو وہ اس لائق ہے کہ تمام مخلوق کو چھوڑ کر اسی پر اکتفاء کیا جائے۔
Top