Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Open Surah Introduction
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
30
31
32
33
34
35
36
37
38
39
40
41
42
43
44
45
46
47
48
49
50
51
52
53
54
55
56
57
58
59
60
61
62
63
64
65
66
67
68
69
70
71
72
73
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Tadabbur-e-Quran - Al-Ahzaab : 48
وَ لَا تُطِعِ الْكٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ دَعْ اَذٰىهُمْ وَ تَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ وَكِیْلًا
وَلَا تُطِعِ
: اور کہا نہ مانیں
الْكٰفِرِيْنَ
: کافر (جمع)
وَالْمُنٰفِقِيْنَ
: اور منافق (جمع)
وَدَعْ
: اور خیال نہ کریں
اَذٰىهُمْ
: ان کا ایذا دینا
وَتَوَكَّلْ
: اور بھروسہ کریں
عَلَي اللّٰهِ ۭ
: اللہ پر
وَكَفٰى
: اور کافی
بِاللّٰهِ
: اللہ
وَكِيْلًا
: کارساز
اور کافروں اور منافقوں کی بات کا دھیان نہ کرو اور ان کی ایذا رسانیوں کو نظر انداز نہ کرو، اور اللہ پر بھروسہ رکھو، اور اللہ اعتماد کے لئے کاف ہے۔
ولا تطع الکفرین والنفقین و دع اذنلھم و توکل علی اللہ وکفی باللہ وکیلا (48) یہ آپ کے ’ نذیر ‘ ہونے کے پہلو کی وضاحت ہے، لیکن مخالفوں کو مخاطب کرکے ان کو کچھ کہنے یا کہلانے کے بجائے اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو مخاطب کرکے بتا دیا کہ اس کو ان مخالفوں کے ساتھ آئندہ کے لئے کیا رویہ اختیار کرنا ہے۔ اس رویہ ہی کے اندر وہ انداز مضمر ہے جو پتہ دے رہا ہے کہ مستقبل قریب میں آپ کے یہ مخالفین کس انجام سے دو چار ہونے والے ہیں۔ فرمایا کہ ان کافروں اور منافقوں کی باتوں کا ذرا دھیان نہ کرو، ان کی ایذا رسانیوں کو نظر انداز کرو، اللہ پر بھروسہ رکھو، اللہ اعتماد کے لئے کافی ہے۔ اس آیت کے اند رحضور ﷺ کے لئے جو تسلی ہے وہ بھی لفظ لفظ سے نمایاں ہے اور مخالفوں کے لئے جو قہر و غضب ہے وہ بھی حرف حرف سے ابلا پڑ رہا ہے۔ ’ ولا تطع الکفرین میں لفظ اطاعۃ کسی کی بات کا دھیان کرنے، اس کو اہمیت دینے اور اس کی پروا کرنے کے مفہوم میں یہاں استعمال ہوا ہے۔ اس معنی میں اس لفظ کا استعمال معروف ہے۔ ہم اس کے محل میں اس مفہوم کی تائید میں شواہد نقل کر آئے ہیں۔ ’ ودع اذھم ‘ میں ’ اذی ‘ سے اشارہ منافقین کی اس طرح کی ایذا رسانیوں کی طرف ہے جس کا مظاہرہ انہوں نے حضرت زینب ؓ کے معاملہ میں کیا اور اس سے پہلے حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کے معاملے میں کرچکے تھے۔ آگے اسی سورة میں ان کو مزید ایذا رسانیوں کا ذکر آرہا ہے۔ لفظ دعو یہاں تحقیر کے مفہوم پر دلیل ہے یعنی ان کی ان خرافات کو چندے نظر اندا زکرو۔ ’ و توکل علی اللہ وکفی بالل وکیلا ‘ کے اندر آنحضرت ﷺ کے لئے جتنی بڑی تسلی ہے اس سے بڑی کفار ومنافقین کے لئے دھمکی ہے کہ اب تم ان کا معاملہ اللہ پر چھوڑو، اللہ ان سے نمٹنے کے لئے کافی ہے ! 8۔ مسئلہ ختم نبوت اس مجموعہ آیات کی تمام ضروری تعلیمات کی وضاحت آیات کے تحت ہوچکی ہے البتہ آیت 40 میں آنحضرت ﷺ کے خاتم النبین ہونے کا جو ذکر آیا ہے اس کے بعض پہلو مزید وضاحت کے طالب ہیں۔ ہم یہاں بالا ختصار ان کی طرف بھی اشارہ کریں گے۔ 1۔ اس سلسلہ میں سب سے زیادہ قابل توجہ چیز یہ ہے کہ حضرات انبیاء (علیہم السلام) کی تاریخی اور ان کی تعلیمات و ارشادات کو جو ریکارڈ قدیم صحیفوں اور قرآن مجید میں یا تاریخ کی کتابوں میں موجود ہے۔ اس میں حضرت آدم ؑ سے لے کر سیدنا مسیح تک کسی نبی کے متعلق نہ تو اللہ تعالیٰ نے یہ خبر دی ہے کہ وہ خاتم الانبیاء ہے نہ کسی نبی نے خود اپنے خاتم الانبیاء ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ بلکہ اس کے برعکس ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی یا نبیوں کی بشارت دی ہے۔ حضرت آدم ؑ اور ان کی ذریت کی خلافت پر فرشتوں کو جو اعتراض تھا، بقرہ کی تفسیر میں آپ پڑھ چکے ہیں کہ ان کے اعتراض کے جواب میں حضرت آدم ؑ نے اپنی ذریت میں پیدا ہونے والے انبیاء کے نام ہی گنا کر ان کو قائل کیا۔ حضرت ابراہیم ؑ سے پہلے انبیاء کے حالات زیادہ تفصیل سے تو کہیں مذکور نہیں ہیں لیکن آپ کے اور آپ کے بعد کے والے انبیاء کے حالات تورات میں بھی موجود ہیں اور قرآن میں بھی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے اپنی ذریت کے دونوں سلسلوں … بنی اسحاق اور بنی اسماعیل… میں انبیاء کی بعث کے لئے جو دعا کی ہے اور اللہ تعالیٰ نے ان کو اس دعا کی قبولیت کی جو بشارت دی ہے وہ قرآن میں بھی مذکور ہے اور تورات و تالمود میں بھی۔ انکے حوالے ہم اس کتاب میں ان کے محل میں، نقل کرے آئے ہیں۔ حضرت ابراہیم ؑ کے بعد بنی اسرائیل میں نبوت کو جو سلسلہ جاری ہوا اس کی تفصیلات کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ہاں یہ روایت رہی ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی نہ صرف بشارت دی ہے بلکہ اکثر حالات میں خود اس کو، اسرائیلی روایت کے مطابق مسخ کرکے نبی کی حیثیت سے روشناس کرایا ہے۔ اسرائیلی سلسلہ کے سب سے زیادہ جلیل القدر نبی سیدنا موسیٰ ؑ ہیں۔ ان کی پیشئن گوئیاں تورات میں بھی موجود ہیں اور قرآن نے بھی ان کی طرف اشارے کیے ہیں۔ انہوں نے حضرت خاتم لالنبین ﷺ کی بعثت کی بھی پیشن گوئی کی ہے جس کا حوالہ ہم سورة اعراف آیت 157 کی تفسیر میں دے چکے ہیں۔ بنی اسرائیل کے دور ِ آخر کے انبیاء میں سے حضرت یحییٰ ؑ ہیں۔ انہوں نے اپنی زندگی کا مشن ہی یہ بتایا کہ میں اپنے بعد آنے ولاے کی راہ ساف کرنے آیا ہوں۔ ان کا یہ اشارہ سیدنا مسیح ؑ کی طرف تھا۔ انہوں نے وہیں سے حضرت مسیح ؑ سے پچھوایا کہ وہ جس کا انتظار تھا تو ہی ہے یا ہم کسی اور کا انتظار کریں ؟“ حضرت مسیح ؑ نے جواب دلوایا کہ جا کے بتا دو کے لنگڑے چل رہے ہیں اور اندھے دیکھ رہے ہیں، اب اور کیا چاہیے ؟“ اس جواب کے بعد حضرت یحییٰ ؑ کو اطمینان ہوگا کہ ان کا مشن پورا ہوگیا، وہ جس کی راہ صاف کرنے آئے تھے وہ آگیا۔ حضرت یحییٰ کے بعد اسرائیلی سلسلے کے آخری نبی و رسول حضرت عیسیٰ ؑ ہیں، انہوں نے اپنے بعد آنحضرت ﷺ کی بعثت کی بشارت دی اور آپ کے نام نامی کی تصریح کے ساتھ بشارت دی۔ سورة صف میں اس کا حوالہ یوں آیا ہے۔ واذ قال عیسیٰ ابن مریم یبنی اسرائیل انی رسول اللہ الیکم مصدقا لما بین یدیی من التوریۃ و مبشرا برسول یاتیی من بعدی اسمہ احمد (العصف : 6) اور جب کہ عیسیٰ بن مریم نے دعوت دی کہ اے بنی اسرائیل ! میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہو کر آیا ہوں ان پیشن گوئیوں کے مطابق جو مجھ سے پہلے سے تورات میں موجود ہیں اور ایک رسول کی خوشخبری دیتا ہو آیا ہوں جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہوگا۔ انجیلوں میں حضرت عیسیٰ ؑ کی جو پیشن گوئیاں آنحضر ﷺ سے متعلق موجود ہیں انکے حوالے سے سورة اعراف آیت 157 کی تفسیر میں گزر چکے ہیں۔ استاد امام مولانا فراہی ؒ کا خیال تو یہ ہے کہ حضرت مسیح ؑ نے انجیلوں میں آسمانی بادشاہت کی جو بشارت دی ہے اور اس سے متعلق جو تمثیلیں بیان فرمائی ہیں وہ بھی تمام تر آنحضرت ﷺ تک انبیاء کی روایت یہی رہی ہے کہ ہر نبی نے اپنے بعد آنے والے نبی کی بشارت دی ہے لیکن آنحضرت ﷺ پر آکر یہ روایت بالکل ختم ہوجاتی ہے۔ نہایت واضح الفاظ میں خود اللہ تعالیٰ نے بھی آپ کو خاتم النبین قرار دیا اور حضور ﷺ نے بھی نہ صرف یہ کہ اپنے بعد کسی آنے والے کی بشارت نہیں دی بلکہ نہایت واضح اور قطعی الفاظ میں بار بار اس حقیقت کا اظہار و اعلان فرمایا کہ آپ آخری نبی ہیں، آپ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ ہر معقول آدمی سمجھ سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے بعد اگر کسی نبی کے آنے کی ادنیٰ گنجائش بھی ہو تو تو سابق انبیاء کی روایت کے مطابق حضور ﷺ اس کی پیشئن گوئی فرماتے اور اگر پیشن گوئی نہ فرماتے تو کم از کم اس شدت کے ساتھ اس دروازے کے بند تو نہ کردیتے کہ جو اس کو کھولنے کی جسارت کرے وہ نقب زن کہلائے۔ 2۔ اس باب میں نبی ﷺ کے جو ارشادات منقول ہیں ان سب کے نقل کرنے میں طوالت ہوگی۔ ہم صرف بعض حدیثوں کا حوالہ دیں گے جن کی شہرت حد تواتر کو پہنچی ہوئی ہے۔ بخاری میں روایت ہے : قال النبی و ان مچلی ومثل الانبیاء من قبلی کمثل رجل بنی بیتا فاحسنہ واجملا الا موضع لبنۃ من زاویۃ فجعل الناس یطوفون بہ ویعجبون لہ ویقولون ھل لاوضعت ھذہ اللبنۃ فاناتلک اللبنۃ وانا خاتم النیبن (بخاری) نبی ﷺ نے فرمایا کہ میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی تمثیل یوں ہے کہ ایک شخص نے ایک عمارت بنائی، نہایت حسین و جمیل، لیکن اس کے ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرتے اور اس کی تحسین کرتے اور کہتے کہ یہ اینٹ بی کیوں نہ رکھ دی گئی ! سو میں وہی اینٹ ہوں اور میں خاتم النبین ہوں۔ اس حدیث کے متعلق یہ بات یاد رکھنے کی ہے کہ کم و بیش انہی الفاظ میں حضرت مسیح ؑ نے بھی آنحضرت ﷺ کی پیشئن گوئی فرمائی تھی۔ ان کا ارشاد ہے کہ جس پتھر کو معماروں نے رد کیا بالآخر وہی کونے کا آخری پتھر بنا۔ علمائے یہود نے آنحضرت ﷺ سے متعلق پیشین گوئیوں پر جن جن طریقوں سے پردہ ڈالنے کی کوشش کی ہے ان کی تفصیلات سورة بقرہ کی تفسیر میں گزر چکی ہیں، لیکن ان کی ان تمام کوششوں کے علی الرغم اللہ تعالیٰ نے حضور ﷺ کے لئے جو مقام مقدر فرمایا تھا وہ آپ کو حاصل ہو کے رہا۔ آپ قصر شریعت کے کونے کی آخرتی اینٹ بھی بنے اور انبیاء و رسل کے مبارک سلسلہ کے خاتم بھی۔ یہ ختم نبوت اس تکمیلِ دین کا لازمی اور بدیہی تقاضا ہے۔ جس کا ذکر اکملت لکم دینکم والی آیت میں ہوا ہے۔ مگر دین کوئی ایسی چیز ہوتا جس کی تکمیل کبھی ہونے والی ہی نہ ہوتی تب تو بیشک نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی جاری رہتا لیکن جب دین کی تکمیل ہوچکی ہے اور اس بدیہی حقیقت کے انکار کی جرأت کوئی بھی نہیں کرسکتا تو پھر اس کے اس لازمی نتیجہ کو بھی تسلیم کرنا پرے گا کہ نبوت و رسالت کا سلسلہ بھی ختم ہوگا۔ اسی حقیقت کو حضور ﷺ نے اس حدیث میں واضح فرمایا ہے اور اتنے مختلف طریقوں سے واضح فرمایا ہے کہ کسی معقول آدمی کے لئے اس میں کسی شبہ کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی ہے۔ ترمذی میں روایت ہے : قال رسول اللہ ﷺ ان الرسالہ والنبوہ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا بی۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہوچکا۔ اب میرے بعد نہ کوئی رسول ہوگا اور نہ کوئی نبی۔ جس مشہور حدیث میں آپ نے تمام انبیاء کے مقابل میں اپنے چھ فضائل گناء ہیں آخری فضیلت ان میں یہ مذکور ہوئی ہے کہ ختم بی النبوین (میرے اوپر انبیاء کا سلسلہ ختم کردیا گیاٌ)۔ اسی طرح ایک روایت میں آپ نے اپنے مختلف اسماء کا ذکر فرمایا ہے جن میں آخری نام آپ نے عاقب بتایا ہے اور اس کی خود ہی یہ شرح فرمائی کہ الذی لیس بعد نبی (جس کے بعد کوئی اور نبی نہیں آئے گا)۔ 3۔ یہ امر بھی واضح رہے کہ نبوت کی بہت سی قسمیں نہیں ہیں۔ نبوت کی صرف ایک ہی قسم ہے جو اپنے تمام شرائط و خصوصیات کے ساتھ قرآن و حدیث میں بیان ہوئی ہے۔ البتہ نبی اور رسول میں ایک فرق ہے جس کی طرف ہم اوپر بھی اشارہ کرچکے ہیں اور اس کتاب کے دوسرے مقامات میں بھی پوری تفصیل سے اس کی وضاحت ہوئی ہے۔ بعض گمراہ فرقوں نے نبوت کے حرم میں نقب لگانے کے لئے اپنے جی سے نبوت کی متعدد قسمیں بیان کی ہیں اور ان کا دعویٰ یہ ہے کہ قرآن و حدیث میں جس نبوت کے ختم ہونے کا ذکر ہے وہ الگ چیز ہے اوعر جس نبوت کے مدعی وہ ہیں وہ دوسری چیز ہے۔ نبوت کی یہ تقسیم ان کی طبع زاد ہے۔ قرآن و حدیث میں اس کا کوئی ذکر تو درکنار اس کا کوئی ادنیٰ اشارہ بھی موجود نہیں ہے۔ اس تقسیم سے انہوں نے بظاہر اپنے کفر کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے لیکن یہ درحقیقت زیادہ فی الکفر ہے یعنی اپنے کفر کو انہوں نے اور زیادہ غلیظ بنا دیا ہے۔ اس لئے کہ اس تقسیم نے نبوت کے اس نظام ہی کو بالکل تلپٹ کر کے رکھ دیا ہے جس پر سارے دین کی عمارت قائم ہے لیکن ہمارے لئے یہاں اس مسئلہ سے تعرض کرنے کی گنجائش نہیں ہے پس اتنی بات یاد رکھیے کہ حضور ﷺ نے جس صراحت کے ساتھ اپنے بعد نبوت کے ختم ہونے کا اعلان فرمایا ہے، اسی وضاحت کے ساتھ اس سوال کو بھی صاف کردیا ہے کہ آپ کے بعد نبوت کا کوئی جزو باقی رہے گا یا نہیں ؟ اور اگر باقی رہے گا تو اس کی نوعیت کیا ہوگی اور اس میں حصہ پانے والے کون لوگ ہوں گے۔ انس بن مالک ؓ سے روایت ہے۔ قال رسول اللہ ﷺ ان الرسالۃ والنبوۃ قد انقطعت فلا رسول بعدی ولا نبی قال فشق ذلک علی الناس فقال ولکن المبشرات قالوا یا رسول اللہ وما المبشرات ! قال رویا الرجل المسلم و ھی جزء من اجزاء النبوۃ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کے میرے بعد رسالت نبوت کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ اب نہ کوئی رسول آئے گا اور نہ کوئی نبی۔ راوی کہتے ہیں کہ یہ بات لوگوں کے دلوں پر شاق گزری تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ ’ مبشرات، باقی رہیں گی۔ لوگوں نے سوال کیا کہ یہ مبشرات کیا ہیں یا رسول اللہ ! آپ نے فرمایا کہ کسی مسلم مرد کے خواب اور یہ چیز نبوت کے اجزاء میں سے ایک جزو ہے۔ بعض روایات میں ’ مبشرات ‘ کی وضاحت ’ الم و یا الحسنۃ ‘ اچھے خواب یا الرویا الصلاحۃ اتک۔ خواب سے بھی وارد ہوئی ہے۔ اس حدیث سے چندباتیں بالکل صاف ہوجاتی ہیں۔ ایک یہ حضور ﷺ کے بعد وحی کا سلسلہ بالکل بندہوگیا۔ اب نبوت کے اجزاء میں سے صرف ایک جز ودریائے صالحہ کا باقی رہ گیا ہے۔ جو لوگ الہام اور مکاشف و مخاطبہ وغیرہ کے مدعی ہیں ان کی بھی اس حدیث سے تردید ہوجاتی ہے۔ دوسری یہ کہ یہ روئے صالحہ کسی بھی مومن و مسلم کو نظر آسکتے ہیں۔ یہ کسی کے لئے خاص نہیں ہیں۔ اس قسم کی رویائے صالحہ دیکھنے والے کو نبوت کا کوئی مقام حاصل نہیں ہوجاتا اور نہ اس قسم کے کو اب کسی پر کوئی حجت ہوتے۔ ان کی حیثیت بس یہ ہوتی ہے کہ اگر خواب دیکھنے والے نہ اچھے خواب دیکھے ہیں تو ان سے ایک قسم کی خوش خبری اور فال نیک حاصل کرے۔ اس سے زیادہ ان کی کوئی اہمیت نہیں۔ تیسری یہ کہ ظلی اور بروزی انبیاء آتے رہیں گے۔ 4۔ قرآن مجید کی حفاظت کے لئے اللہ تعالیٰ نے جو انتظام فرمایا وہ بھی درحقیقت ختم نبوت ہی کا ایک لازمی تقاضا ہے۔ آنحضرت ﷺ سے پہلے جو انبیاء (علیہم السلام) آنے کی تعلیمات کی حفاطت کے لئے وہ انتظام نہیں کیا گیا جو قرآن کی حفاظت کے لئے کیا گیا، اس کی وجہ یہ کہ آنحضرت ﷺ سے پہلے انیاء کی بعثت کا سلسلہ جاری تھا۔ اگر سابق نبی کی تعلیم کو اس کی قوم فراموش کردیتی یا اس میں تحریف کردیتی تو بعد میں آنے والا نبی اس کی بھی تجدید کردیتا اور اس میں اللہ تعالیٰ جو اضافہ فرماتا اس سے بھی لوگوں کو آگاہ کردیتا۔ لیکن آنحضرت ﷺ کے بعد چونکہ وحی کا سلسلہ منقطہ ہوگیا اور دین بھی کامل ہوگیا اس وجہ سے ضروری ہوا کہ قرآن مجید کو اس طرح محفوظ کردیا جائے کہ قیامت تک شیاطین جن و انس اس میں کوئی دراندازی نہ کرسکیں۔ چناچہ یہ واقعہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کو اس طرح محفوظ کردیا ہے کہ اس میں کسی زیر زبر کے فرق ہونے کا بھی کوئی امکان نہیں رہا۔ حق و باطل کے امتیاز کے لئے اصل خدائی کسوٹی قرآن ہے۔ اگر وہ محفوظ ہے تو اب کسی وحی والہام اور کسی مخاطبہ و مکالمہ کی حاجت باقی نہیں رہی اور نبی کی اصل۔ چونکہ اسی پہلو سے ہوتی ہے اور اس وجہ سے اب نبی کی بھی ضرورت باقی نہیں رہی۔ رہا شہادت علی الناس کا فریضہ اور لوگوں میں پیدا ونے والے خرابیوں کی اصلاح تو یہ ذمہ داری اصلاً اس امت پر بحیثیت مجموعی عائد ہوتی ہے اور اس کے لئے عند اللہ مسئول علما رہوں گے۔ اور احادیث میں یہ بات واضح کردی گئی ہے کہ اس امت میں ایسے علماء و مصلحین برابر پیدا ہوتے رہیں گے جو مفسدین کی پیدا کی ہوئی خرابیوں کی اصلاح کرتے رہیں گے اگرچہ ان کی تعداد کتنی ہی کم ہو۔ 5۔ اس تفصیل سے یہ بات واضح ہوگئی کہ اب قیامت تک کسی نبی کے آنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ یہ بات قرآن و حدیث کے نصوص سے بھی ثابت ہے اور عقل و فطرت کی شہادت بھی یہی ہے۔ اگر روایات و آثار میں کوئی ایسی چیز آپ کے سامنے آئے جو ان قطعی نصوص کے خلاف نظرآئے تو اس پر غور کیجئے۔ اگر تاویل کی راہ سے باہم توفیق و تطبیق ہوجائے تو فبہا، اگر توفیق و تطبیق نہ ہوسکے تو ترجیح بہرحال قرآن کے نصوص اور دین کے مسلمات کو حاصل ہوگی۔ میں نے اس پہلو سے تمام روایات و آثار کو جانچا ہے۔ میرے نزدیک ان کی تطبیق اس بنیادی اصول کے ساتھ نہایت عمدہ طریقے پر ہوجاتی ہے، لیکن یہاں اس بحث کی تفصیلات میں جانے کا محل نہیں ہے۔
Top