Madarik-ut-Tanzil - An-Najm : 12
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰى مَا یَرٰى
اَفَتُمٰرُوْنَهٗ : کیا پھر تم جھگڑتے ہو اس سے عَلٰي مَا يَرٰى : اوپر اس کے جو وہ دیکھتا ہے
کیا جو کچھ وہ دیکھتے ہیں تم اس میں ان سے جھگڑتے ہو
آیت 12: اَفَتُمٰرُوْنَهٗ عَلٰي مَا يَرٰى (کیا تم ان سے ان کی دیکھی ہوئی چیز میں نزاع کرتے ہو) کیا تم جھگڑتے ہو، یہ المراء سے مشتق ہے۔ جس کا معنی جھگڑنا ہے اور المراء یہ مری الناقۃ سے لیا گیا۔ گویا جھگڑنے والوں میں سے ہر ایک اس کو کہلواتا ہے اور نکلواتا ہے جو اس کے ساتھی کے پاس ہوتا ہے، مری یمری، اونٹنی کے تھن کو دودھ کے لیے سہلانا تاکہ دودھ نکلے۔ قرات : اَفَتُمٰرُوْنَهٗ حمزہ علی خلف یعقوب نے پڑھا ہے، اس کا معنی یہ ہے کیا تم جھگڑے میں اس پر غالب آنا چاہتے ہو۔ یہ ماریتہ فمریتہ سے لیا گیا ہے۔ کیونکہ اس میں غلبہ کا معنی پایا جاتا ہے، اس لیے علی سے متعدی کیا گیا ہے۔ علی ما یری علی سے متعدی کیا گیا، جیسا تم کہو۔ غلبتہ علی کذا۔ ایک قول یہ ہے : افتمرونہ ای افتجحدونہ کیا تم اس کا انکار کرتے ہو، عرب کہتے ہیں مریتہ حقہ اذا جحدتہ جبکہ حق کا انکار کردیا جائے، علی سے اس کا متعدی ہونا اسی وقت صحیح ہے جبکہ اس میں تضمین کو تسلیم کریں۔
Top