Tadabbur-e-Quran - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے نبی کفار اور منافقین سے جہاد کرو اور ان پر سخت بن جاؤ۔ اور ان کا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ نہایت ہی برا ٹھکانا ہے
آیات 73 تا 80 کا مضمون : آگے کی آیات میں پہلے پیغمبر ﷺ کو یہ ہدایت فرمائی کہ یہ منافقین تمہاری کریم النفسی سے فائدہ اٹھا کر اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ چمٹے ہوئے ہیں۔ اب ان کے بارے میں اپنا رویہ سخت کرو تاکہ درست ہونا ہو تو یہ درست ہوں ورنہ اپنے کیفر کردار کو پہنچیں۔ یہ اپنی مجلسوں میں کفریہ کلمات بکتے اور جھوٹی قسموں سے تم کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ ان کے ارادے نہایت خطرناک تھے لیکن اللہ نے وہ پورے نہیں ہونے دئیے۔ اب ان کو مزید مہلت دینے کی گنجائش نہیں۔ اللہ اور رسول نے ان کو اپنے فضل سے جو نوازا تو یہ چیز ان کے لیے شکر گزاری اور ممنونیت کی بجائے شرارت اور اسلام دشمنی کا باعث بن گئی۔ یہ اظہار تو یہ کرتے تھے کہ اللہ نے انہیں مال دیا تو وہ پوری فیاضی سے خدا کی راہ میں خرچ کریں گے لیکن جب اللہ نے انہیں مال دیا تو انہوں نے اللہ اور رسول سے منہ پھیرا اور ان کے اس رویہ نے ان کے دلوں میں نفاق کی جڑیں اتنی مضبوط جما دی ہیں کہ اب وہ اکھڑ نہیں سکتیں۔ اس کے بعد فرمایا کہ یہی نہیں کہ یہ خود بخیل بن بیٹھے ہیں بلکہ اللہ کے جو مخلص بندے اپنی گاڑھی کمائی میں سے، خوش دلی اور نیاز مندی سے خرچ کرتے ہیں یہ ان کا بھی مذاق اڑاتے اور ان کی دل شکنی کرتے ہیں تاکہ وہ بھی خرچ کرنے سے رک جائیں۔ ساتھ ہی نہایت شدت کے ساتھ پیغبر ﷺ کو ان کے لیے استغفار کرنے سے روک دیا ہے کہ اب یہ تمہاری طرف سے اس رافت و رحمت کے سزوار نہیں رہے بلکہ ہر پہلو سے شدت ہی کے سزوار ہیں۔ آیات کی تلاوت فرمائیے۔ منافقین کے شدید احتساب کا حکم۔ اصلاً تو یہاں مقصود صرف آنحضرت ﷺ کو اس امر کی تاکید ہے کہ آپا اپنا رویہ منافقین کے باب میں یکسر تبدیل کرلیں اور شدت کے ساتھ ان کا اھتساب کریں لیکن ساتھ ہی کفار کا بھی حوالہ دے دیا ہے جس سے اس امر کی طرف اشارہ مقصود ہے کہ اب یہ منافقین مسلمانوں کے زمرہ کے لوگ نہیں ہیں بلکہ یہ بھی کفار ہی کے زمرہ میں شامل ہیں۔ جہاد کا لفظ قتال اور شدت احتساب و دارگیر سب پر حاوی ہے۔ مطلب یہ ہے کہ يٰٓاَيُّھَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنٰفِقِيْنَ ، کفار کے ساتھ اس نوعیت کا جہاد کرو جس کا تمہیں اعلان براءت کے تھت تفصیل سے حکم دیا جا چکا ہے اور ان منافقین کے احتساب اور داروگیر کا جہاد کرو۔ وَاغْلُظْ عَلَيْهِم، اسی احتساب اور داروگیر کی وضاحت ہے۔ یعنی اب تک تم نے ان کے ساتھ نرمی ورافت کا جو رویہ رکھا اس کی قدر انہوں نے نہیں پہچانی۔ یہ تمہاری کریم النفسی ہے فائدہ اٹھا کر اپنی شرارتوں میں اور دلیر ہوتے چلے گئے۔ جھوٹے بہانوں اور جھوٹی قسموں کو انہوں نے اپنے لیے سپر بنا رکھا ہے اور تم اپنی طبیعت کی نرمی کی سبب سے ان کی چالوں سے آگاہ ہونے کے باوجود طرح دے جاتے ہو۔ اب اس کی گنجائش باقی نہیں رہی ہے۔ اب ان کو اچھی طرح کسو اور یہ معاملے میں سخت کسوٹی پر پرکھوتا کہ ان پر واضح ہوجائے کہ یہ جھوٹ اور فریب کی نقاب ان کے چہروں پر باقی رہنے والی نہیں ہے۔ اب یا تو انہیں مسلمانوں کی طرح مسلمان بن کر رہنا ہوگا۔ یا اس انجام سے دوچار ہونا پڑے گا جو کفار کے لیے مقدر ہوچکا ہے۔ آیات 43 عفا اللہ عنک لم اذنت لہم، الایۃ کے تحت ہم جو کچھ لکھ آئے ہیں ایک نظر اس پر بھی ڈال لیجیے اس لیے کہ یہ ہدایت اسی کی توضیح مزید ہے۔ وَمَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ ۭوَبِئْسَ الْمَصِيْرُ ، یعنی اس دنیا میں یہ تمہاری اور اہل ایمان کی سختی اور سخت گیری کے سزوار ہیں اور اس کے بعد ان کا ٹھکانا جہنم ہے جو نہایت برا ٹھکانا ہے۔ اس لیے کہ اس پر ایسے سخت گیر ملائکہ مامور ہیں جو ذرا بھی نرمی نہیں برتیں گے بلکہ ان کے باب میں خدا کے ہر حکم کی تعمیل کریں گے۔ علیہا ملائکۃ غلاظ شداد لا یعصون اللہ ما امرہم (التحریم : 6)۔
Top