Mafhoom-ul-Quran - At-Tawba : 73
یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ اغْلُظْ عَلَیْهِمْ١ؕ وَ مَاْوٰىهُمْ جَهَنَّمُ١ؕ وَ بِئْسَ الْمَصِیْرُ
يٰٓاَيُّھَا : اے النَّبِيُّ : نبی جَاهِدِ : جہاد کریں الْكُفَّارَ : کافر (جمع) وَالْمُنٰفِقِيْنَ : اور منافقین وَاغْلُظْ : اور سختی کریں عَلَيْهِمْ : ان پر وَمَاْوٰىهُمْ : اور ان کا ٹھکانہ جَهَنَّمُ : جہنم وَبِئْسَ : اور بری الْمَصِيْرُ : پلٹنے کی جگہ
اے نبی ! کفار اور منافقین کا پوری طرح مقابلہ کرو اور ان سے سختی سے پیش آئو، آخرکار انکا ٹھکانا جہنم ہے اور وہ بہت برا ٹھکانا ہے۔
منافقوں پر سختی اور جبر تشریح : ان آیات میں بڑی اہم ہدایات دی جا رہی ہیں وہ یہ ہیں پورے نو سال منافقین کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی مہلت دی گئی جس کی وجہ بیرونی دشمنوں سے نمٹنا بھی تھا۔ لیکن جب مسلمان مضبوط ہوگئے تو پھر حکم ہوا کہ اب مسلم آبادی کو مشرکین و منافقین کی ملاوٹ سے پاک کیا جائے تاکہ اندرونی دشمن کی سازشوں اور شرارتوں سے ریاست کو محفوظ کیا جائے یہ بیرونی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہوتے ہیں، اس لیے ان سے باقاعدہ اور ہر طرح سے نمٹا جائے ان کو خوب اچھی طرح ہر مسلم شہری یہ احساس دلا دے کہ وہ مسلمانوں کے دشمن ہیں ان کو ہر طرح ذلیل و خوار اور بےکار مخلوق ثابت کرکے ان کا اچھی طرح قلع قمع کیا جائے کیونکہ ملکی سلامتی کے لیے یہ بےحد ضروری ہے۔ کیونکہ اس طرح معاشرہ پاک صاف اور پرامن ہوسکتا ہے۔ ملکی سلامتی اور ترقی کے لیے یہ بےحد ضروری ہے۔ پھر یہ بتایا گیا کہ کفار و منافقین کا ٹھکانا جہنم ہوگا اور وہ بےحد برا ٹھکانا ہے۔ پھر یہ توہین رسالت کے مرتکب ہیں اکثر و بیشتر مسلمانوں کو برا بھلا کہتے، نبی اکرم ﷺ کو برا بھلا کہتے، ہنسی مذاق کرتے مسلمانوں کو نقصان پہنچانے کی تدبیریں بناتے اور جب ان کو پتہ چلتا کہ نبی اکرم ﷺ کو ان کے منافق ہونے کا یا مرتد ہونے کا علم ہوگیا ہے یا اس منصوبے کا پتہ چل گیا ہے جو وہ اکثر بناتے رہتے جیسا کہ غزوئہ تبوک سے واپسی پر ان لوگوں نے آپ ﷺ کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جس کی خبر وحی کے ذریعہ سے کردی گئی اور یہ لوگ ناکام ہوگئے تو جب ان کی شرارتیں ظاہر ہوجائیں تو سچا بننے کے لیے رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور قسمیں کھا کھا کر اپنی بےگناہی کا یقین دلاتے۔ ان لوگوں کو اس بات پر ذرا بھی شرم نہ آتی کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحمت سے ان کی مالی حالت کتنی اچھی ہوگئی ہے۔ اسلام کی وجہ سے مدینہ میں ہر طرح خوشحالی اور فارغ البالی آگئی تھی یہ لوگ بھی امیر ہوگئے تھے۔ ایک معمولی قصبہ تمام عرب کا دارالخلافہ بن چکا تھا۔ تو اللہ رب العزت ان مشرک لوگوں کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر تو یہ سچے دل سے شرارتوں سے باز آجائیں تو یہ خود ان کے لیے اچھا ہے ورنہ یہ بےیارومددگار دنیا میں بھی خوار ہوں گے اور آخرت میں بھی اللہ نے ان کو دردناک عذاب کی وعید سنائی ہے، جو ان کو مل کر رہے گا۔
Top