Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 77
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
فَعَقَرُوا : انہوں نے کونچیں کاٹ دیں النَّاقَةَ : اونٹنی وَعَتَوْا : اور سرکشی کی عَنْ : سے اَمْرِ : حکم رَبِّهِمْ : اپنا رب وَقَالُوْا : اور بولے يٰصٰلِحُ : اے صالح ائْتِنَا : لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
آخر انہوں نے اونٹی کی کونچوں کو کاٹ ڈالا اور اپنے پروردگار کے حکم کی سرکشی کی اور کہنے لگے کہ صالح جس چیز سے تم ہمیں ڈراتے ہو اگر تم خدا کے پیغمبر ہو تو اسے ہم پر لے آؤ۔
77: فَعَقَرُ وا النَّاقَۃَ (غرض اس اونٹنی کو مار ڈالا) عقر کی نسبت پوری قوم کی طرف کی اگرچہ عاقر تو قد اربن سالفؔ تھا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ پوری قوم اس پر رضامند تھی۔ یہ قدار سرخ نیلگوں بونا تھا۔ جیسا کہ فرعون بھی اسی طرح تھا رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اے علی ؓ پہلوں میں بڑا بدبخت صالح کی اونٹنی کو ذبح کرنے والا تھا۔ اور پچھلوں میں بڑا بدبخت تیرا قاتل ہوگا۔ ( مجمع الزوائد : 299) وَعَتَوْا عَنْ اَمْرِرَبِّھِمْ (اور اپنے رب کے حکم سے سرکشی کی) انہوں نے اپنے رب کے حکم کی نافرمانی کی اور اس سے منہ موڑا اور تکبر کیا۔ امر ربھم سے مراد وہ حکم ہے جو ان کو صالح ( علیہ السلام) کی زبان پر دیا گیا : فَذَرُوْہَا تَاْکُلْ فِیْٓ اَرْضِ اللّٰہِ (الاعراف : 73) یا شان رب مراد ہے۔ اور وہ دین ہے۔ وَقَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ (اور کہنے لگے اے صالح جس کی آپ ہم کو دھمکی دیتے تھے اسکو منگوائیں) یعنی عذاب اِنْ کُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ۔ (اگر تم پیغمبروں میں سے ہو)
Top