Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 77
فَعَقَرُوا النَّاقَةَ وَ عَتَوْا عَنْ اَمْرِ رَبِّهِمْ وَ قَالُوْا یٰصٰلِحُ ائْتِنَا بِمَا تَعِدُنَاۤ اِنْ كُنْتَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ
فَعَقَرُوا : انہوں نے کونچیں کاٹ دیں النَّاقَةَ : اونٹنی وَعَتَوْا : اور سرکشی کی عَنْ : سے اَمْرِ : حکم رَبِّهِمْ : اپنا رب وَقَالُوْا : اور بولے يٰصٰلِحُ : اے صالح ائْتِنَا : لے آ بِمَا تَعِدُنَآ : جس کا تو ہم سے وعدہ کرتا ہے اِنْ : اگر كُنْتَ : تو ہے مِنَ : سے الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
غرض اونٹنی کو (بھی) مار ڈالا، اور اپنے پروردگار کے حکم سے سرتابی کی اور کہنے لگے اے صالح (علیہ السلام) اگر پیغمبر ہو تو اس (عذاب) کو لے آؤ جس کی ہمیں دھمکی دیتے ہو،103 ۔
103 ۔ گویا پیغمبر کا کام فرمایشی عذاب کی فی الفور تعمیل کرنا ہے۔ (آیت) ” فعقروالناقۃ “۔ عقر کے معنی کونچیں کاٹ ڈالنے کے ہیں۔ مراداس سے اونٹ کو ہلاک کر ڈالنا ہے۔ فعل عقر کا اسناد قرآن مجید ساری قوم کی جانب کررہا ہے حالانکہ اونٹنی کے مارنے میں ظاہر ہے کہ گنتی کے چند افراد شریک ہوں گے۔ لیکن یہ عمل ساری قوم کی رضامندی واتفاق رائے سے ہوا۔ اس لیے اسے منسوب بھی قوم کی جانب کیا گیا۔ اسندالعقر الی جمیعھم لانہ کان برضاءھم وان لم یباشرہ الا بعضھم۔ (آیت) ” امرربھم “۔ یہ امر پروردگار کا کیا تھا ؟ یہ حکم اعتقاد توحید و رسالت کا تھا۔ ای ما امر بہ علی لسان صالح۔۔۔ اوشان ربھم وھو دینہ (کشاف)
Top