Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 113
لَیْسُوْا سَوَآءً١ؕ مِنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اُمَّةٌ قَآئِمَةٌ یَّتْلُوْنَ اٰیٰتِ اللّٰهِ اٰنَآءَ الَّیْلِ وَ هُمْ یَسْجُدُوْنَ
لَيْسُوْا : نہیں سَوَآءً : برابر مِنْ : سے (میں) اَھْلِ الْكِتٰبِ : اہل کتاب اُمَّةٌ : ایک جماعت قَآئِمَةٌ : قائم يَّتْلُوْنَ : وہ پڑھتے ہیں اٰيٰتِ اللّٰهِ : اللہ کی آیات اٰنَآءَ الَّيْلِ : اوقات۔ رات وَھُمْ : اور وہ يَسْجُدُوْنَ : سجدہ کرتے ہیں
مگر سارے اہل کتاب یکساں نہیں ہیں۔ ان میں کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو راہ راست پر قائم ہیں، راتوں کو اللہ کی آیات پڑھتے ہیں اور اس کے آگے سجدے کرتے ہیں۔
نیک اور عبادت گزار اہل کتاب تشریح : ان آیات میں یہود و نصارٰی کی ان چھوٹی جماعتوں کا ذکر ہے جو عام اہل کتاب سے ذرا ہٹ کر ہیں ان کی تعریف اللہ رب العزت ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ وہ سیدھی راہ پر قائم ہیں، رات کے وقت خشوع و خضوع سے عبادت کرتے ہیں، سجدے کرتے ہیں، اللہ پر ایمان لاتے ہیں، آخرت پر ایمان لاتے ہیں، نیکی کا حکم دیتے ہیں، برائی سے منع کرتے ہیں اور نیک راستوں کی طرف پوری کوشش اور خلوص و محبت سے جلدی کرتے ہیں، یعنی کوئی بھی نیک کام اگر ان کو نظر آئے وہ اس کی طرف خوشی سے لپکتے ہیں یہ تمام صفات ایک ایسے گروہ یا انسان کی ہیں جو مضبوطی سے ایمان کی راہ اختیار کرتا ہے۔ آل عمران کی آیت 112 میں اس بات کی وضاحت کی گئی ہے : ” یہ جہاں بھی پائے گئے ان پر ذلت کی مار پڑی، کہیں اللہ کے ذمہ یا انسانوں کے ذمہ (سوائے اس کے کہ اللہ کی طرف سے کوئی عہد ہو یا لوگوں کی طرف سے کوئی عہد ہو) میں پناہ مل گئی تو یہ اور بات ہے۔ یہ اللہ کے غضب میں گھر گئے ہیں اور یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ یہ اللہ کی آیات سے کفر کرتے رہے۔ “ الخ مندرجہ بالا آیت سے تو یہی ظاہر ہوتا ہے گو کہ اللہ نے ان پر ذلت و خواری مسلط کردی ہے۔ مگر وہ غفور ورحیم ہے اس (اللہ) نے ایک راستہ اہل کتاب کے لیے یہ کھلا رکھ دیا کہ ان کی نجات اس صورت سے ہوسکتی ہے، یعنی کچھ عزت و سکون ان کو مل سکتا ہے اور وہ ہے۔” اللہ کی طرف سے کوئی عہد یا بندوں کی طرف سے کوئی عہد۔ “ اب ہم پھر آیات 115-114-113- کی طرف آتے ہیں۔ اگرچہ یہود میں بیشمار برائیاں پیدا ہوچکی تھیں، اللہ رب العزت نے ان کو پوری طرح اپنی رحمتوں اور برکتوں سے محروم کردیا تھا۔ مگر اہل کتاب میں ایک ایسا طبقہ تھا جو مومنین کی صفات رکھتا تھا مثلا : عبداللہ بن سلام اور ان کے ساتھی یا شاہ حبشہ نجاشی وغیرہ، یعنی انہوں نے اللہ کی رسی کا سہارا لے رکھا تھا تو یہ اللہ سے عہد کی ایک شرط پوری ہوگئی اور دوسری طرف امریکہ کے ساتھ دوستی یہ دوسری شرط پوری ہوگئی یعنی لوگوں سے عہد۔ اسی صورت سے ان کے لیے ایک چھوٹی سی ریاست کا قیام ہوگیا۔ مئی 1949 ء میں ارض مقدس فلسطین کے ایک چھوٹے سے قطعہ پر امریکہ کی مدد یا حمایت سے سلطنت اسرائیل قائم ہوگئی۔ یہ سب ان نیک اور صالح لوگوں کی عبادت، تقوٰی اور دعاؤں کا ہی نتیجہ ہے۔ کیونکہ یہ لوگ ہٹ دھرمی کو چھوڑ کر حق پہچاننے میں کامیاب ہوگئے تھے۔ قبول حق کی توفیق صرف اسے ہی حاصل ہوسکتی ہے جو ضد چھوڑ دے۔ اللہ پر ایمان لے آئے۔ اللہ کی آیات پڑھے، رات کے وقت سجدے کرے، اللہ اور آخرت پر ایمان لائے، برے کاموں سے بچے، نیک کام کرے اور اللہ کا فرماں بردار بن جائے ایسے لوگوں کو ان کا اجر ضرور ملے گا۔ ایسے ہی لوگ نیک بخت ہیں اور ان کے نیک اعمال کا بدلہ ان کو ضرور دیا جائے گا۔ ان لوگوں کے تمام اعمال اللہ رب العزت کے علم میں ہیں۔ کیونکہ اس سے کوئی چیز چھپی ہوئی نہیں اور نہ ہی وہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھولتا ہے۔ اسرائیل کو ریاست تو مل گئی ہے۔ لیکن ان کے کام زیادہ تر ابھی بھی وہی پرانے ہی ہیں اور اس وقت مسلمانوں کے سب سے بڑے مخالفین میں سے اہل کتاب (یہودی) بھی ایک ہیں جب اللہ تعالیٰ یہود کا ذکر کرتے ہیں تو اس میں اس نیک طبقہ کا شمار نہیں ہوتا جس کا ذکر اوپر کیا گیا ہے۔ یہودی تو بہرحال یہودی ہی ہیں۔ ان سے خبردار رہنے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگلی آیات میں تفصیل بیان کی جاتی ہے۔ بداعمال لوگوں کی اور ان کے انجام کی۔
Top