Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 35
وَ قَالَ الَّذِیْنَ اَشْرَكُوْا لَوْ شَآءَ اللّٰهُ مَا عَبَدْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ نَّحْنُ وَ لَاۤ اٰبَآؤُنَا وَ لَا حَرَّمْنَا مِنْ دُوْنِهٖ مِنْ شَیْءٍ١ؕ كَذٰلِكَ فَعَلَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ
وَقَالَ : اور کہا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اَشْرَكُوْا : انہوں نے شرک کیا لَوْ : اگر شَآءَ اللّٰهُ : چاہتا اللہ مَا : نہ عَبَدْنَا : ہم پرستش کرتے مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے سوائے مِنْ شَيْءٍ : کوئی۔ کسی شے نَّحْنُ : ہم وَلَآ : اور نہ اٰبَآؤُنَا : ہمارے باپ دادا وَلَا حَرَّمْنَا : اور نہ حرام ٹھہراتے ہم مِنْ دُوْنِهٖ : اس کے (حکم کے) سوا مِنْ شَيْءٍ : کوئی شے كَذٰلِكَ : اسی طرح فَعَلَ : کیا الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو مِنْ قَبْلِهِمْ : ان سے پہلے فَهَلْ : پس کیا عَلَي : پر (ذمے) الرُّسُلِ : رسول (جمع) اِلَّا : مگر الْبَلٰغُ : پہنچا دینا الْمُبِيْنُ : صاف صاف
اور شرک کرنے والے کہتے ہیں کہ اگر اللہ چاہتا تو ہم اس کے سوا کسی کی بھی پرستش نہ کرتے (نہ) ہم اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم اس کے بدون (حکم) کسی چیز کو حرام کرسکتے،50۔ ایسی ہی (حرکت) وہ لوگ بھی کرچکے ہیں جو ان کے قبل ہوئے ہیں،51۔ سو پیغمبروں کے ذمہ تو صرف صاف صاف پہنچا دینا ہے،52۔
49۔ (خواہ اسی زندگی میں، خواہ بعد موت، خواہ دونوں جگہ) 50۔ مشرکین کہتے تھے کہ خدا کو اگر ہمارے طریقے ناپسند ہیں تو وہ ہمیں روک ہی کیوں نہیں دیتا، اس نے ہمیں ان چیزوں پر قدرت ہی کیوں دی ؟ یہ احمق حق تعالیٰ کی مشیت تکوینی (یابندوں کی قوت اختیار وآزادی عمل) اور اس کی رضا وحکم کے درمیان کوئی فرق ہی نہیں کرتے تھے ! 51۔ یعنی یہی ضابطہ زمانہ ماضی کے گمراہوں کو بھی پیش آچکا ہے، حالانکہ اگر ذرا بھی سوچیں، تو یہی سوال الٹ کر خود ان پر بھی عائد ہوتا ہے۔ آخر ان کے عقائد کی رو سے بھی تو خدا کو کچھ چیزیں پسند ہیں اور کچھ ناپسند، تو وہ اپنی ناپسندیدہ چیزوں کو واقع ہی کیوں ہونے دیتا ہے ؟ 52۔ (اور اس فریضہ سے وہ ہر دور اور زمانہ میں پوری طرح ادا ہوچکے) ھل یہاں بھی نفی کے مفہوم میں اور ما کے مرادف ہے (آیت) ” البلغ المبین “ پوری تبلیغ یہ کہ جو دعوے ہوں وہ واضح ہوں، اور ان میں کوئی گنجلک یا خفا باقی نہ رہ جائے اور ہر دعوی پر دلیلیں صحیح، روشن اور عام فہم قائم ہوجائیں۔
Top