Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 19
وَ مَنْ اَرَادَ الْاٰخِرَةَ وَ سَعٰى لَهَا سَعْیَهَا وَ هُوَ مُؤْمِنٌ فَاُولٰٓئِكَ كَانَ سَعْیُهُمْ مَّشْكُوْرًا
وَمَنْ : اور جو اَرَادَ : چاہے الْاٰخِرَةَ : آخرت وَسَعٰى : اور کوشش کی اس نے لَهَا : اس کے لیے سَعْيَهَا : اس کی سی کوشش وَهُوَ : اور (بشرطیکہ) وہ مُؤْمِنٌ : مومن فَاُولٰٓئِكَ : پس یہی لوگ كَانَ : ہے۔ ہوئی سَعْيُهُمْ : ان کی کوشش مَّشْكُوْرًا : قدر کی ہوئی (مقبول)
اور جو کوئی آخرت کی نیت رکھے گا اور اس کے لئے کوشش بھی اس کے لائق کرے گا درآنحالیکہ وہ مومن بھی ہو سو ایسے لوگوں کی کوشش مقبول ہوگی،30۔
30۔ (اللہ کے ہاں اور ایسوں کو اجر پورا مل کررہے گا) بہ خلاف آیت ماقبل کے یہاں وعدہ مطلق اور قطعی صورت میں ہے طالب عقبی کو (جو حقیقۃ طالب مولی ہی ہوتا ہے) اسے ایمان اور سعی حسن عمل کے بعد جزائے کامل یقیناً ملے گی۔ (آیت) ” من ارادالاخرۃ “۔ یعنی جو اپنا مطمح نظر اس مکمل وپایدار زندگی کو بنائے رکھے اور اپنے عمل سے مقصود اسی کو رکھے۔ گویا قبول کی پہلی شرط تصحیح نیت ہوئی۔ (آیت) ” وسعی لھا سعیھا “۔ محض تمنا ہرگز کافی نہیں۔ جب انسان نیکی حاصل کرنا چاہے تو لازم ہے کہ عملا بھی اس کی طرف قدم بڑھائے، محض آرزو و تمنا کا درجہ قطعا ناکافی ہے۔ اور عمل بھی اپنے ظن وتخمین سے نہیں یا اپنی ہوائے نفس کے ماتحت نہیں بلکہ قانون شریعت کے مطابق ہو۔ گویا دوسری شرط تصحیح عمل ہوئی۔ حسب ضابطہ شریعت اعمال و طاعات کا شریعت کے سانچہ میں ڈھلا ہوا ہونا بہت ہی ضروری ہے۔ اپنے دل سے گڑھی ہوئی ریاضتیں اور مجاہدات کیسے ہی شدید ہوں ہرگز نافع نہ ہوسکیں گے اگر معیار شریعت سے ہٹے ہوئے رہے۔ (آیت) ’ وھو مومن “۔ تیسری اور سب سے زبردست شرط یہ تصحیح عقیدہ کی ہوئی، منکر قانون الہی کا عمل کوئی سا بھی مقبول نہیں۔
Top