Tafseer-e-Majidi - Al-Israa : 18
مَنْ كَانَ یُرِیْدُ الْعَاجِلَةَ عَجَّلْنَا لَهٗ فِیْهَا مَا نَشَآءُ لِمَنْ نُّرِیْدُ ثُمَّ جَعَلْنَا لَهٗ جَهَنَّمَ١ۚ یَصْلٰىهَا مَذْمُوْمًا مَّدْحُوْرًا
مَنْ : جو کوئی كَانَ يُرِيْدُ : چاہتا ہے الْعَاجِلَةَ : جلدی عَجَّلْنَا : ہم جلد دیدیں گے لَهٗ فِيْهَا : اس کو اس (دنیا) میں مَا نَشَآءُ : جتنا ہم چاہیں لِمَنْ : جس کو نُّرِيْدُ : ہم چاہیں ثُمَّ : پھر جَعَلْنَا : ہم نے بنادیا لَهٗ : اس کے لیے جَهَنَّمَ : جہنم يَصْلٰىهَا : وہ داخل ہوگا اس میں مَذْمُوْمًا : مذمت کیا ہوا مَّدْحُوْرًا : دور کیا ہوا (دھکیلا ہوا)
جو کوئی دنیا کی نیت رکھے گا ہم اس کو دنیا میں سے جتنا چاہیں گے جس کے واسطے چاہیں گے فورا ہی دے دیں گے پھر ہم اس کے لئے جہنم رکھیں گے اس میں وہ بدحال اور راندہ ہو کر داخل ہوگا،29۔
29۔ آیت کے اندر بڑی عبرت کا مضمون بیان ہوا ہے آج دنیا میں کثرت سے ایسے لوگ ہیں کہ اپنے مختلف منصوبوں میں کامیاب پاکر اپنے برسرحق اور مقبول سمجھنے لگتے ہیں اور بجائے اس کے کہ ضمیر کی خلش محسوس کریں اپنی ہر کامیابی کے ساتھ اور زیادہ غافل مطمئن اور بےفکر ہوجاتے ہیں۔ کوئی رشوت لے لے کر اپنی حرص پوری کررہا ہے کوئی سود لے لے کر اپنا خزانہ جمع کررہا ہے اور چونکہ دولت کھٹا کھٹ چلی آرہی ہے اپنے حال پر اور زیادہ نازاں ہوتا جاتا ہے۔ اور اپنے عمل پر احتساب ونظر ثانی کی ضرورت ہی سرے سے نہیں سمجھتا۔ آیت میں بتایا ہے کہ یہ فوری کامیابی مطلق صورت میں ہرگز خوش ہونے والی چیز نہیں دیکھنا تو یہ چاہیے کہ غایت عمل کیا ہے اور مقصود سعی کیا ہے۔ اگر محض دنیا ہے تو انجام تمامتر خراب ہی ہونا ہے۔ (آیت) ” من کان یرید العاجلۃ “۔ یعنی جو اپنا مطمح نظر اسی عارضی وفانی دنیا کو بنائے رکھے اور اپنے عمل سے مقصود اسی کو رکھے۔ (آیت) ” مانشآء لمن نرید “۔ دونوں قیدیں اہم ہیں یہ وعدہ مطلق صورت میں نہیں کہ ہر طالب دنیا کو اس کی خاطر خواہ دنیا مل ہی جائے گی بلکہ صرف اسی کو اور اتنی ہی مقدار میں ملے گی، جس کے لئے اور جس حد تک مشیت الہی مصالح تکوینی کے مطابق ہوگی ،
Top