Tafseer-e-Majidi - Maryam : 17
فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِهِمْ حِجَابًا١۪۫ فَاَرْسَلْنَاۤ اِلَیْهَا رُوْحَنَا فَتَمَثَّلَ لَهَا بَشَرًا سَوِیًّا
فَاتَّخَذَتْ : پھر ڈال لیا مِنْ : سے دُوْنِهِمْ : ان کی طرف حِجَابًا : پردہ فَاَرْسَلْنَآ : پھر ہم نے بھیجا اِلَيْهَا : اس کی طرف رُوْحَنَا : اپنی روح (فرشتہ) فَتَمَثَّلَ : شکل بن گیا لَهَا : اس کے لیے بَشَرًا : ایک آدمی سَوِيًّا : ٹھیک
پھر ان لوگوں کے سامنے سے انہوں نے پردہ کرلیا،21۔ پھر ہم نے ان کے پاس اپنے فرشتہ خاص کو بھیجا وہ ان کے سامنے بھلا چنگا انسان بن کر ظاہر ہوا،22۔
21۔ (کہ ان کی نگاہوں سے آڑ میں ہوجائیں) (آیت) ” دونھم “۔ ھم ضمیر جمع ہے مراد آپ کے گھروالے ہیں جن کا ذکر اھلھا میں موجود ہے۔ 22۔ یعنی ایک فرشتہ خاص کو اس خلوت میں ان کے پاس انسان کی شکل میں بھیجا۔ (آیت) ” روحنا “۔ قرآن مجید نے ملائکہ مقربین و خواص کو روح ہی سے تعبیر کیا ہے۔ وسمی اشراف الملئکۃ ارواحا (راغب) اور فراء لغوی نے کہا ہے کہ یہاں روح کی اضافت اللہ کی طرف ایسی ہی ہے جیسی اللہ کی زمین اور اللہ کا آسمان بولا جاتا ہے۔ اضاف الروح المرسل الی مریم الی نفسہ کما تقول ارض اللہ وسماۂ (لسان) بہرحال یہاں مراد جبرئیل (علیہ السلام) ہیں قال الاکثرون انہ جبرئیل (علیہ السلام) (کبیر) انجیل میں بھی انہیں کے نام کی تصریح ہے۔ ” چھٹے مہینے جبرائیل فرشتہ خدا کی طرف سے گلیل کے ایک شہر میں جس کا نام ناصرہ تھا، ایک کنواری کے پاس بھیجا گیا۔ اور اس کنواری کا نام مریم تھا “۔ (لوقا۔ 1: 26) (آیت) ” سویا “۔ یعنی بھلا چنگا، پوراپورا، صحیح وسالم۔ (آیت) ” تمثل “۔ مفسر تھانوی (رح) نے لکھا ہے کہ تمثل سے حقیقت ملکیہ کا معدوم ہوجانا لازم نہیں آتا۔ یہ اشباح اس حقیقت کے اعتبار سے ایسے ہی ہیں جیسے ہمارے اعتبار سے مختلف لباس ،
Top