Tafseer-e-Majidi - Al-Baqara : 114
وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰهِ اَنْ یُّذْكَرَ فِیْهَا اسْمُهٗ وَ سَعٰى فِیْ خَرَابِهَا١ؕ اُولٰٓئِكَ مَا كَانَ لَهُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْهَاۤ اِلَّا خَآئِفِیْنَ١ؕ۬ لَهُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَهُمْ فِی الْاٰخِرَةِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ
وَمَنْ : اور کون اَظْلَمُ : بڑا ظالم مِمَّنْ ۔ مَنَعَ : سے جو۔ روکا مَسَاجِدَ : مسجدیں اللہِ : اللہ اَنْ : کہ يُذْکَرَ : ذکر کیا جائے فِیْهَا : اس میں اسْمُهُ : اس کا نام وَسَعٰى : اور کوشش کی فِیْ : میں خَرَابِهَا : اس کی ویرانی اُولٰئِکَ : یہ لوگ مَا کَانَ : نہ تھا لَهُمْ : ان کے لئے اَنْ ۔ يَدْخُلُوْهَا : کہ۔ وہاں داخل ہوتے اِلَّا : مگر خَائِفِیْنَ : ڈرتے ہوئے لَهُمْ : ان کے لئے فِي الدُّنْيَا : دنیا میں خِزْيٌ : رسوائی وَلَهُمْ : اور ان کے لئے فِي الْآخِرَةِ : آخرت میں عَذَابٌ عَظِیْمٌ : بڑا عذاب
اور اس سے بڑھ کر ظالم اور کون ہوگا جو اللہ کی مسجدوں کو اس سے روک دے کہ ان میں اس کا نام لیا جائے،407 ۔ اور اس کی بربادی کی کوشش کرے،408 ۔ یہ لوگ اس لائق ہی نہیں کہ ان میں (داخل) ہوں مگر ہاں یہ کہ ڈرتے ہوئے،409 ۔ ان کے لیے دنیا میں (بھی بڑی) رسوائی ہے اور آخرت میں (بھی) بڑا عذاب ہے،410 ۔
407 ۔ (جیسا کہ مشرکین مکہ نے عین حرم کعبہ میں ذکر و عبادت الہی سے مسلمانوں کو روک دیا تھا۔ خصوصا واقعہ حدیبیہ میں) ھؤلاء المشرکون حین حالوا بین رسول اللہ ﷺ یوم الحدیبیۃ وبین ان یدخل مکۃ (ابن جریر عن ابن زید) بعض نے مراد بیت المقدس سے لی ہے کہ وہاں ٹائیٹس titus رومی کے عہد میں رومی مشرکین نے یہود اہل توحید کو ذکر الہی سے روک دیا تھا۔ بہرحال حکم عام ہے قریبی سبب نزول جو کچھ بھی رہا ہو۔ اور حکم کو کسی خاص مسجد یا خاص زمانہ کے ساتھ مخصوص کرنا درست نہیں۔ انہ کل مسجد وھو الصحیح لان اللفظ عام اراد بصیغۃ الجمع فتخصیصہ ببعض المساجد اوفی بعض الازمنۃ محال (ابن عربی) مسجد کے لفظی معنی جائے سجدہ کے ہیں۔ مراد اس سے مسلمانون کی عبادت گاہ ہوتی ہے۔ مسجد کے حسن وتاثر، کشش ودلآویزی صفائی وسادگی کی شہادت غیر مسلموں کی زبان سے بھی منقول ہے۔ ملاحظہ ہو حاشیہ تفسیر انگریزی۔ (آیت) ” اظلم “ یعنی ظالم تر، خبیث تر، مجرم تر۔ فقہاء نے تصریح کی ہے کہ منع ذکر وداخلہ مسجد اگر کسی ضرورت دینی اور مصلحت شرعی سے ہوتوبالکل درست ہے کہ ایسے موقع پر یہ امور مسجد کی بربادی وویرانی میں نہیں، عین اصلاح وآبادی میں داخل ہیں۔ مسائل ذیل بھی فقہاء نے آیت کے تحت میں ذکر کیے ہیں۔ ( 1) مسجد میں اذن عام ہونا شرط ہے ، (2) مسجد کا دروازہ کسی مملوک زمین پر نہ ہو، بعض عارفوں نے لکھا ہے کہ جب اینٹ اور چونے کی بنی ہوئی عمارت میں ذکر حق روک دینے والوں کے حق میں قرآن نے یہ وعید اور پھٹکار رکھی ہے تو اس قوم یا شخص کے جرم کی اہمیت یا عظمت کا کیا ٹھکانا ہے جو قلوب انسانی کو کہ وہ معنوی سجدہ گاہ حق ہیں۔ ذکر حق سے روک۔ اسلامی تعلیم کی روک تھام میں سعی کرنا، اشاعت مذہب حق میں روڑے اٹکانا سب اس کے تحت میں آجاتے ہیں۔ 408 فقہاء نے کہا ہے کہ جس طرح اللہ کے ذکر سے مسجد آباد ہوتی ہے۔ ممنوعات وبدعات کے ارتکاب سے مسجد کی بربادی بھی سمجھی جائے گی، نیز وہ تمام امور جو نمازیوں کی کمی اور مسجد کی ویرانی کے باعث ہوں آیت کے تحت میں داخل ہوجاتے ہیں۔ 409 (مسلمانوں کے رعب ودبدبہ سے) یعنی داخلہ کی اجازت غیر مسلم کو صرف اس حال میں دی جاسکتی ہے کہ وہ مسلمانو کا محکوم، اور اس کا داخلہ سرکشا نہ نہیں مطیعانہ ہو، قرآن مجید میں لفظ مسجد یہ صیغہ جمع ہے۔ لیکن ایک قول ہے کہ مساجد سے یہاں مراد مسجد حرام یاحرم کعبہ ہی ہے۔ المراد بالمساجد المسجد الحرام (معالم عن ابن زید) اور اس شبہہ کا کہ لفظ جمع سے مراد واحد کیونکر ہوگی، جواب یہ دیا گیا ہے کہ محاورۂ زبان میں یہ جائز ہے۔ مثلا اگر کوئی محض ایک ہی مرد نیک کو ایذا پہنچائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ نیکوں کو ستانے والا بڑا ظالم ہے۔ کمانقول لمن اذی صالحا واحدا ومن اظم ممن اذی الصالحین (کشاف) ایک قول یہ بھی ہے کہ آیت سارے کافروں کے حق میں ہے کہ عبادت سے روکنے والے تو سارے ہی کافر ہیں۔ اور مساجد سے مراد کل روئے زمین ہے۔ چناچہ کافروں کو دارالاسلام میں داخلہ کا کوئی حق نہیں۔ بجز اس کے مسلمانوں ہی کے شرائط پر ہو۔ اور یہ قول امام ماتریدی (رح) کی جانب منسوب ہے (احمد) مراد اگر مسجد حرام لی جائے تو قانونی وتشریعی حیثیت سے قطع نظر، واقعاتی رنگ میں بات بالکل صحیح نظرآئے گی، چناچہ مسجد حرام اس وقت سے آج تک بحمد اللہ ! مسلمانوں ہی کے قبضہ میں چلی آرہی لیے مخصوص کردی جائے اور اس کے لیے اذن عام دے دیا جائے وہ شخصی ملکیت سے خارج ہوجاتی ہے البتہ اگر کسی نے اپنے گھر کا کوئی حصہ عبادت کے لیے مخصوص کردیا، اور اس کے لیے اذن عام نہیں رکھا تو اس پر مسجد کا اطلاق ہی نہ ہوگا اور وہ اس شخص کی ذاتی ملک باقی رہے گی (ابن عربی) 410 ۔ عذاب آخرت کا تجربہ تو آخرت ہی میں ہوگا۔ باقی دنیا میں ان لوگوں کی ذلت ورسوائی کا مشاہدہ تو چند روز میں سب کو ہوگیا۔ یہود، مشرکین، منافقین، سارے اعدائے اسلام جزیرۂ عرب میں اور اس کی سرحدوں میں دیکھتے دیکھتے نیست ونابود ہوکر رہے اور قرآن مجید کی پیشگوئی لفظ بہ لفظ پوری ہوئی۔
Top