Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 31
فَبَعَثَ اللّٰهُ غُرَابًا یَّبْحَثُ فِی الْاَرْضِ لِیُرِیَهٗ كَیْفَ یُوَارِیْ سَوْءَةَ اَخِیْهِ١ؕ قَالَ یٰوَیْلَتٰۤى اَعَجَزْتُ اَنْ اَكُوْنَ مِثْلَ هٰذَا الْغُرَابِ فَاُوَارِیَ سَوْءَةَ اَخِیْ١ۚ فَاَصْبَحَ مِنَ النّٰدِمِیْنَ٤ۚۛۙ
فَبَعَثَ : پھر بھیجا اللّٰهُ : اللہ غُرَابًا : ایک کوا يَّبْحَثُ : کریدتا تھا فِي الْاَرْضِ : زمین میں لِيُرِيَهٗ : تاکہ اسے دکھائے كَيْفَ : کیسے يُوَارِيْ : وہ چھپائے سَوْءَةَ : لاش اَخِيْهِ : اپنا بھائی قَالَ : اس نے کہا يٰوَيْلَتٰٓى : ہائے افسوس مجھ پر اَعَجَزْتُ : مجھ سے نہ ہوسکا اَنْ اَكُوْنَ : کہ میں ہوجاؤں مِثْلَ : جیسا هٰذَا : اس۔ یہ الْغُرَابِ : کوا فَاُوَارِيَ : پھر چھپاؤں سَوْءَةَ : لاش اَخِيْ : اپنا بھائی فَاَصْبَحَ : پس وہ ہوگیا مِنَ : سے النّٰدِمِيْنَ : نادم ہونے والے
اس پر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کو کھودتا تھا تاکہ اسے دکھا دے کہ وہ اپنے بھائی کی لاش کو کس طرح چھپائے،116 ۔ (یہ دیکھ کر) وہ بولا، ہائے میری کمبختی کہ میں اس سے بھی گیا گزرا ہوا کہ اس کوے ہی کے برابر ہوتا اور اپنے بھائی کی لاش چھپا دیتا،117 ۔ غرض وہ (بہت ہی) شرمندہ ہوا،118 ۔
116 ۔ یہ روئے زمین پر پہلا قتل تھا، اور قابیل غریب کو یہ بھی خبر نہ تھی، کہ اپنے مقتول بھائی کی لاش کو آخر کرے کیا۔ آخر ایک معمولی اور حقیر ساپرندہ، انتظامات تکوینی کے ماتحت اس قاتل کو دفن کی تعلیم دینے کے لیے بھیجا گیا۔ (آیت) ” سوء ۃ “۔ کے لفظی معنی جسم کے پوشیدہ رکھے جانے والے حصہ کے ہیں، یہاں مراد نعش سے ہے۔ ای جیفۃ اخیہ (کبیر) قیل جمیع جیفتہ فان المیت کلہ عورۃ (بحر) 117 ۔ قاتل اب بہ کمال حسرت وندامت کہہ رہا ہے، کہ مجھے تو اس مردار خوار جانور کے برابر بھی فہم و شعور نہیں ! توریت میں تو ہابیل کی تدفین کا کچھ ذکر نہیں، البتہ شارحین توریت نے ایک پرندہ کا ذکر کیا ہے، کہ اس کے عمل تدفین کو دیکھ کر آدم (علیہ السلام) وحوا (علیہ السلام) نے بھی ہابیل کا لاشہ زمین میں دفن کیا، لیکن پرندہ کا نام بجائے کوے کے جنگلی فاختہ آیا ہے، ملاحظہ ہوجیوش انسائیکلوپیڈیا جلد اول صحفہ 49 ۔ (آیت) ” اعجزت ان اکون مثل ھذا الغراب “۔ بعض فقہاء نے اس بیان سے جو از قیاس تمثیلی کا استنباط کیا ہے فیہ دلیل علی قیاس الشبہ (ابن العربی) 118 ۔ (اپنی اس تباہ حالی پر) یہ ندامت نفس قتل پر بالکل نہ تھی، جو توبہ کی قائم مقام کسی درجہ میں بھی ہوسکتی، بلکہ قتل کے بعد اسے جو دشواریاں نظر آئیں، صرف ان پر تھی جسے ندامت طبعی کہا جاسکتا ہے، جو کسی حد تک بھی توبہ کا کام نہیں دے سکتی، گویا قاتل صرف پریشان ہوا، پشیمان اب بھی نہ ہوا، ولم یکن ذلک ندم توبۃ (قرطبی) قیل انہ ندم علی القتل علی غیر جھۃ القربۃ الی اللہ تعالیٰ منہ وخوف عقابہ (جصاص) ۔۔۔ فکان ندمہ لاجل ھذہ الاسباب لالکونہ معصیۃ (کبیر) حکیم الامت تھانوی (رح) نے فرمایا کہ اگر یہ ندامت عواقب قتل پر نہیں، بلکہ قتل ہی پر مانی جائے، جب بھی ہر ندامت توبہ نہیں، جب تک معذرت اور انکسار اور فکر تدارک بھی اس کے ساتھ شامل نہ ہو، یہ ندامت اگر کہیں معصیت کو معصیت سمجھ کر، اور خوف خدا سے ہوتی تو توبہ قبول ہی نہ ہوگئی ہوتی، ولوندم علی الوجہ الماموربہ لقبل اللہ توبتہ وغفر ذنوبہ (جصاص) الندم لہ شروط فکل من جاء بشروطہ قبل منہ ومن اخل بھا اوبشیء منھا لم یقبل (ابن العربی) الندم علی المعاصی انما ینفع بشرط العزم علی ان لایفعل فی المستقبل (ابن العربی)
Top