Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 37
یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنَ النَّارِ وَ مَا هُمْ بِخٰرِجِیْنَ مِنْهَا١٘ وَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّقِیْمٌ
يُرِيْدُوْنَ : وہ چاہیں گے اَنْ : کہ يَّخْرُجُوْا : وہ نکل جائیں مِنَ : سے النَّارِ : آگ وَمَا : حالانکہ نہیں هُمْ : وہ بِخٰرِجِيْنَ : نکلنے والے مِنْهَا : اس سے وَلَهُمْ : ان کے لیے عَذَابٌ : عذاب مُّقِيْمٌ : ہمیشہ رہنے والا
چاہیں گے کہ نکل آئیں آگ سے حالانکہ اس سے (کبھی) نہ نکل پائیں گے اور ان کے لیے مستقل عذاب ہے،134 ۔
134 ۔ (آیت) ” عذاب مقیم “۔ وہ عذاب بائدار ومستقل ہے، جو کبھی ہٹنے والا اور مٹنے والا نہیں۔ معناہ دائم ثابت لایزول ولا یحول (قرطبی) عذاب دائم ثابت لا یزول عنھم ولا ینتقل ابدا “۔ (ابن جریر) (آیت) ” یریدون ان یخرجوا من النار “۔ عذاب اور وہ بھی عذاب الیم !۔۔ ظاہر ہے کہ دوزخیوں کو کیسی کچھ تڑپ، کیسی کچھ حسرت، کیسی کچھ تمنا اس عذاب سے نکل بھاگنے کی ہوگی ! (آیت) ” ما ھم بخرجین منھا ولھم عذاب مقیم “۔ اس ارشاد سے ان حسرت نصیبوں کی حسرت نصیبی پر گویا مہرلگ گئی۔ عذاب سے نکلنے کا نہ کوئی امکان ہے، نہ کوئی تدبیر کام دے سکتی ہے، بلکہ اب یہ بھی سنادیا گیا کہ یہ عذاب جس درجہ کا شدید وہولناک ہوگا، اسی طرح لازوال بھی ہوگا، اشتداد عذاب قبل کی آیت میں بیان ہوچکا، امتداد عذاب اب بتادیا گیا، اس عذاب دائمی کی خصوصیت چونکہ کافروں کے ساتھ بیان ہوئی، اس سے متکلمین نے یہ نتیجہ اور صحیح نتیجہ نکالا ہے کہ مخلص کلمہ گوہر صورت عذاب سے مخلصی پاجائے گا، احتج اصحابنا بھذہ الایۃ علی انہ تعالیٰ یخرج من النار من قال لا الہ الا اللہ علی سبیل الاخلاص (کبیر) اور امام رازی (رح) نے یہ بات بھی خوب فرمائی ہے کہ (آیت) ” ولھم عذاب مقیم “۔ کی ترکیب خود حصر پر دلالت کررہی ہے، یعنی یہ عذاب دائمی صرف کافروں کے لیے ہوگا، نہ کہ غیر کافروں کے لیے، وھذا یفید الحصر فکان المعنی ولھم عذاب مقیم لا لغیرھم (کبیر)
Top