Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 39
فَمَنْ تَابَ مِنْۢ بَعْدِ ظُلْمِهٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰهَ یَتُوْبُ عَلَیْهِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ
فَمَنْ : بس جو۔ جس تَابَ : توبہ کی مِنْ : سے بَعْدِ : بعد ظُلْمِهٖ : اپنا ظلم وَاَصْلَحَ : اور اصلاح کی فَاِنَّ : تو بیشک اللّٰهَ : اللہ يَتُوْبُ عَلَيْهِ : اس کی توبہ قبول کرتا ہے اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ غَفُوْرٌ : بخشنے والا رَّحِيْمٌ : مہربان
پھر جو شخص اپنی حرکت ناشائستہ کے بعد توبہ کرلے، اور اپنی اصلاح کرلے، تو بیشک اللہ اس پر توجہ کرے گا،138 ۔ بیشک اللہ بڑا مغفرت والا ہے، بڑا مہربان ہے،139 ۔
138 ۔ (رحمت کے ساتھ یوں کہ پچھلا گناہ معاف کردے گا، اور توبہ پر استقامت کی بھی توفیق دے گا) (آیت) ” فمن تاب “۔ یہ توبہ قاعدۂ شریعت کے مطابق ہونا چاہیے، فقہاء نے کہا ہے کہ چرائی ہوئی چیز مالک کو واپس کردینا چاہیے، اور اگر تلف ہوچکی ہو تو اس کا تاوان مالک کو دے، اگر اس کی استطاعت نہ ہو، تو مالک سے معاف کرانے کی کوشش کرے، کہ یہ سب شرائط تکمیل توبہ میں سے ہیں، سزائے قطع ید جو حق العباد کی اتلاف کی سزا ہے، محض توبہ سے معاف نہیں ہوجاتی۔ فاما القطع فلا یستقط عنہ بالتوبۃ عندالاکثرین (معالم) والقطع لا یستط بالتوبۃ (قرطبی) لم یسقطہ شیء ولا توبۃ السارق (ابن العربی) وقال الجمھور لا یسقط عنہ ھذا الحد (کبیر) حنفیہ ومالکیہ کا اس پر اتفاق ہے۔ البتہ امام شافعی (رح) کے ایک قول میں اس سے اختلاف نقل ہوا ہے اور ایک گروہ نے اس پر استدلال اس سے کیا ہے کہ آیت کے آخر میں (آیت) ” غفور رحیم “۔ جو آگیا ہے۔ قال بعض العلماء التابعین یسقط عن الحد لان ذکر الغفور الرحیم فی اخرھذہ الایۃ (کبیر) فقیہ مفسر ابن العربی مالکی نے اس موقع پر شافعیہ کو مخاطب کرکے جو کچھ لکھا ہے (احکام القرآن، جلد اول۔ صفحہ 254) وہ پڑھنے کے قابل ہے۔ (آیت) ” واصلح “۔ یعنی آیندہ کے لیے ایسی عادتیں اور حرکتیں چھوڑ دے۔ توبہ کا تعلق ماضی سے تھا، اور اصلاح حال کا تعلق مستقبل سے ہے۔ باریک بین فقہاء نے لفظ (آیت) ” واصلح “ سے یہ بھی استنباط کرلیا ہے کہ مجرم نے جب توبہ کرکے اپنی حالت کی اصلاح کرلی، تو اب اس پر طعن جائز نہیں، مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ توبہ کا معتبر ہونا اصلاح پر موقوف ہے۔ مثلا سرقہ وغیرہ کا مال بہ شرط امکان واپس کردینا، ورنہ مالک سے معاف کرالینا، اور جب مالک نہ معلوم ہو تو اللہ کی راہ میں تصدق کردینا۔ 139 ۔ چناچہ صفت غفر کے تقاضہ سے اس نے پچھلا گناہ معاف کردیا، اور صفت رحمت کے تقاضہ سے آئندہ کے لیے توفیق تقوی دے دی۔ امام رازی (رح) نے آیت میں ان صفات کے آنے سے جو موقع مدح پر لائی گئی ہیں، معتزلہ کے رد میں یہ استدلال کیا ہے کہ توبہ کی قبولیت اللہ کے ذمہ کچھ واجب نہیں ہے، واجب ہوتی تو یہ فضل و احسان کو یاد دلانے والی صفات نہ لائی جاتیں، دلت الایۃ علی ان قبول التوبۃ غیر واجب علی اللہ تعالیٰ لانہ تعالیٰ تمدح بقبول التوبۃ والتمدح انما یکون بفعل التفضل والاحسان لا باداء الواجبات (کبیر)
Top