Tafseer-e-Majidi - Al-Maaida : 67
یٰۤاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ١ؕ وَ اِنْ لَّمْ تَفْعَلْ فَمَا بَلَّغْتَ رِسَالَتَهٗ١ؕ وَ اللّٰهُ یَعْصِمُكَ مِنَ النَّاسِ١ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا یَهْدِی الْقَوْمَ الْكٰفِرِیْنَ
يٰٓاَيُّھَا : اے الرَّسُوْلُ : رسول بَلِّغْ : پہنچا دو مَآ اُنْزِلَ : جو نازل کیا گیا اِلَيْكَ : تمہاری طرف (تم پر مِنْ : سے رَّبِّكَ : تمہارا رب وَ : اور اِنْ : اگر لَّمْ تَفْعَلْ : یہ نہ کیا فَمَا : تو نہیں بَلَّغْتَ : آپ نے پہنچایا رِسَالَتَهٗ : آپ نے پہنچایا وَاللّٰهُ : اور اللہ يَعْصِمُكَ : آپ کو بچالے گا مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ اِنَّ : بیشک اللّٰهَ : اللہ لَا يَهْدِي : ہدایت نہیں دیتا الْقَوْمَ الْكٰفِرِيْنَ : قوم کفار
اے (ہمارے پیغمبر جو کچھ آپ پر آپ کے پروردگار کی طرف سے اترا ہے یہ (سب) آپ (لوگوں تک) پہنچا دیجیے،231 ۔ اور اگر آپ نے یہ نہ کیا تو آپ نے اللہ کا پیغام پہنچایا ہی نہیں،232 ۔ اللہ آپ کو لوگوں سے بچائے رکھے گا،233 ۔ یقیناً اللہ کافر لوگوں کو راہ نہ دے گا،234 ۔
231 ۔ (آیت) ” ما انزل الیک من ربک “۔ اس میں قرآن مجید کے سارے کا سارا آجانا تو ظاہر ہی ہے۔ باقی جو چیزیں وحی خفی کے ذریعہ سے رسول اللہ ﷺ کو تعلیم ہوتی تھیں، وہ بھی اس عموم میں شامل ہیں۔ قال ابن عباس ؓ المعنی بلغ جمیع ما انزل الیک (قرطبی) فیہ امر للنبی ﷺ یتبلیغ الناس جمیعا ما ارسلہ بہ الیہم من کتابہ واحکامہ وان لایکتم منہ شیئا خوفا من احد ولا مدار اۃ لہ (جصاص) جمیع ما انزل الیک (مدارک) (آیت) ” یایھا الرسول۔ “۔ تبلیغ کے موقع پر یہ انداز خطاب بجائے خود نہایت بلیغ وحکیمانہ ہے کہ اے مخاطب تمہاری تو حیثیت ہی تمامتر رسول کی، پیغام پہنچانے والے کی ہے۔ 232 ۔ یعنی اگر آپ نے کوئی بات احکام خداوندی میں سے چھپالی، تو گویا آپ نے فریضہ رسالت ادا ہی نہیں کیا، فان کتمت شیئا منہ فما بلغت رسالتہ (قرطبی، عن ابن عباس ؓ اخبرانہ ان ترک تبلیغ شیء منہ فھو کمن لم یبلغ شیئا (جصاص) فکانک لم تبلغ الرسالۃ اصلا (مدارک) لان کتمان بعضھا ککتمان کلھا (جلالین) اور ایسے مفروضات، محالات عادی ہی نہیں محالات عقلی تک، مثلا ایک کے بجائے دو خداؤں کا ہونا، تو قرآن مجید نے بیان توحید تک میں روارکھے ہیں، اس میں رد آگیا ان غالی پرستوں کا جن کا یہ عقیدہ ہے کہ آپ ﷺ نے نعوذ باللہ کسی خوف یا مصلحت سے قرآن مجیدہم تک پورے کا پورا نہیں، بلکہ کسی قدر ناقص صورت میں پہنچایا ہے۔ دلت علی انہ ﷺ لم یسر الی احد شیئا من امر الدین (قرطبی) اور حقیقتہ یہ ہے بھی مرتبہ رسالت سے بہت ہی گری ہوئی چیز کہ پیغمبر جیسا عبد کامل بھی کوئی حکم شریعت کسی مروت یا کسی خوف سے چھپا جائے، حضرت عائشہ صدیقہ ؓ نے کیسی لطیف اور سچی بات اس موقع پر کہی ہے کہ اگر آپ ﷺ نے کوئی سا بھی جزو قرآن کریم کا چھپایا ہوتا تو وہ یہی جزوہوتا ! قالت لوکان محمد ﷺ کا تما شیئا من القران لکتم ھذہ الایۃ (ابن کثیر) فقہاء نے آیت سے استنباط کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی طرح علماء امت کے لیے بھی کسی مسئلہ شریعت کا اخفاء وکتمان جائز نہیں۔ ھذا تادیب للنبی ﷺ وتادیب لحملۃ العلم من امتہ الا یکتموا شیئا من امر شریعتہ (قرطبی) 233 ۔ (کہ آپ ﷺ کے قتل وہلاک پر قدرت حاصل کرسکیں) اس لیے آپ ﷺ تبلیغ کے باب میں تو اپنی جان کی ذرا فکر نہ کیجئے، مخالفین ومعاندین جو کچھ بھی چاہیں کرتے رہیں۔ یعصمک من القتل فلایصلون الی قتلک (معالم) ایک سوال یہاں یہ پیدا کیا گیا ہے کہ جب محفوظیت کا وعدہ ہوچکا تھا، تو پھر جنگ احد میں جسم مبارک کو جراحتیں کیسے پہنچیں ؟ مفسریں نے اس کے متعدد جوابات دیئے ہیں، لیکن سب سے زیادہ صاف اور بےتکلف جواب مفسرتھانوی (رح) نے قلم سے یہ ہے کہ وعدۂ محفوظیت سیاق تبلیغ میں کیا گیا ہے، اس لیے اس کا تعلق بھی قدرۃ اتنی ہی محفوظیت سے ہے جو آپ ﷺ کے فرائض تبلیغ میں مانع نہ ہو، بالکلیہ محفوظیت نہ مقصود تھی نہ ہوسکتی تھی، مرض، صدمہ، زخم وغیرہ تو حکمت تکوینی کے ماتحت رفع درجات و ترقی مراتب کے لیے ضروری ہیں، آیت سے علماء نے یہ استنباط بھی کیا ہے کہ علماء حق پرست خدا کے کام کو اپنے ذمہ سمجھیں اور اپنی ضرورتوں کا کفیل اسی کے فضل کو سمجھے رہیں۔ 234 ۔ (کہ آپ ﷺ تک پہنچ کر اپنے ملعون منصوبوں کو پورا کرسکیں) لایمکنھم مما یریدون ازالہ بک من الھلاک (کشاف)
Top