Maarif-ul-Quran - An-Naml : 82
وَ اِذَا وَقَعَ الْقَوْلُ عَلَیْهِمْ اَخْرَجْنَا لَهُمْ دَآبَّةً مِّنَ الْاَرْضِ تُكَلِّمُهُمْ١ۙ اَنَّ النَّاسَ كَانُوْا بِاٰیٰتِنَا لَا یُوْقِنُوْنَ۠   ۧ
وَاِذَا : اور جب وَقَعَ الْقَوْلُ : واقع (پورا) ہوجائے گا وعدہ (عذاب) عَلَيْهِمْ : ان پر اَخْرَجْنَا : ہم نکالیں گے لَهُمْ : ان کے لیے دَآبَّةً : ایک جانور مِّنَ الْاَرْضِ : زمین سے تُكَلِّمُهُمْ : وہ ان سے باتیں کرے گا اَنَّ النَّاسَ : کیونکہ لوگ كَانُوْا : تھے بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیت پر لَا يُوْقِنُوْنَ : یقین نہ کرتے
اور جب ان کے بارے میں (عذاب کا) وعدہ پورا ہوگا تو ہم ان کے لئے زمین میں سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے بیان کردے گا اس لئے کہ لوگ ہماری آیتوں کی پر ایمان نہیں لاتے تھے
ذکر بعض اشراط ساعت یعنی علامات قیامت قال اللہ تعالیٰ واذا وقع القول علیہم اخرجنا لہم دابۃ من الارض۔۔۔ الی۔۔۔ لایت لقوم یؤمنون۔ (ربط) گزشتہ آیات میں دلائل قاہرہ سے اپنے کمال قدرت اور کمال علم کو بیان کر کے امکان حشر اور امکان قیامت کو ثابت کیا پھر اس پر آنحضرت ﷺ کی نبوت و رسالت کو بطور تفریح ذکر کیا۔ اب ان آیات میں مقدمات قیامت یعنی قیامت کی بعض علامتوں کو ذکر کرتے ہیں کہ قیامت کے قریب ایک دابہ (جانور) زمین سے نکلے گا اور لوگوں سے کلام کرے گا اور دابۃ الارض کا زمین سے نکلنا قیامت کی نشانی ہوگی اور قیامت کی علامتوں کا بتلانا سوائے نبی کے کسی کے لئے ممکن نہیں۔ قیامت کی علامتوں کا علم صرف نبی ہی کے بتلانے سے ہوسکتا ہے۔ چناچہ فرماتے ہیں اور جب یہ منکرین قیامت عناد اور سرکشی میں اس حد تک پہنچ جائیں گے کہ کسی عالم اور واعظ کی نصیحت اور موعظت ان کے حق میں کارگر نہ ہوگی اور اللہ کا حکم ناطق ان پر آپڑے گا یعنی ان پر حجت پوری ہوجائے گی اور ہر طرح غضب الٰہی کے مستحق ہوجائیں گے تو اس وقت تک ان کی فضیحت کے لئے زمین سے ایک جانور نکالیں گے جو ان سے انسان کی طرح کلام کرے گا اس لئے کہ وہ ہماری نشانیوں پر یقین نہیں لاتے تھے۔ جو بات پیغمبروں کے وارثوں کے کہنے سے نہیں مانی تھی اب وہ ایک جانور کی زبانی ماننی پڑے گی۔ مگر اس وقت کا ماننا کچھ نفع نہیں دے گا ماننے کا وقت گزر گیا۔ ” دابۃ الارض “ سے ایک جانور مراد ہے جو حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے نزول کے بعد قیامت کے قریب مکہ مکرمہ کی سرزمین سے نکلے گا۔ جس طرح اللہ تعالیٰ نے صالح (علیہ السلام) کے لئے پتھر سے ایک اونٹنی نکالی تھی اسی طرح قیامت کے قریب اللہ تعالیٰ مکہ کی زمین سے ایک دابۃ (جانور) نکالے گا اور اس کے پاس ایک مہر ہوگی جس سے مومن اور کافر کی پیشانی پر داغ اور نشانی لگائے گا۔ مومن کی پیشانی پر سفید نشان لگائے گا اور کافر کی پیشانی پر سیاہ داغ لگائے گا اس نشان کے بعد مومن اور کافر ظاہری طور پر پہچانا جائے گا کہ یہ مومن ہے اور یہ کافر ہے۔ دابۃ الارض کا قیامت کے قریب زمین سے نکلنا قرآن کریم کی اس آیت سے اور احادیث متواترہ سے ثابت ہے جس میں شک اور شبہ کی گنجائش نہیں۔ رہا یہ امر کہ اس کی شکل کیسی ہوگی اور کہاں سے نکلے گا اور اس وقت کیا واقعات پیش آئیں گے سو اس بارے میں جو احادیث وارد ہوئی ہیں وہ اخبار آحاد کے درجہ میں ہیں خروج دابۃ الارض کے متعلق جو احادیث آئی ہیں ان کی قدرے تفصیل تفسیر قرطبی ص 234 ج 13، اور تفسیر ابن کثیر ص 374 ج 3۔ اور شرح عقیدہ سفارینیہ از ص 137 ج 2۔ تا ص 142 میں مذکور ہیں۔ احادیث میں جن مشہور ومعروف علامات قیامت کا ذکر ہے ان میں سے ایک علامت خروج دابۃ الارض بھی ہے اور دابۃ الارض کا خروج اس وقت ہوگا کہ جب آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع کرے گا۔ اور اس کے بعد آفتاب بجائے مشرق کے مغرب سے طلوع کرے گا۔ اور اس کے بعد لگاتار یکے بعد دیگرے قیامت کی نشانیاں ظاہر ہوں گی۔ سماوی آیات کے لحاظ سے قیامت کی پہلی نشانی آفتاب کا مغرب سے طلو ع ہونا ہے اور آیات ارضیہ کے اعتبار سے پہلی نشانی دابۃ الارض کا زمین سے نکلنا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے قیامت کی قریبی نشانی کا ذکر ذکر فرمایا اب آئندہ آیت میں مجمل طریقہ سے روز حشر کے کچھ احوال و اہوال کا ذکر فرماتے ہیں اور یاد کرو اس دن کو ہم جمع کریں گے ہر امت میں سے ایک جماعت اور ایک جتھہ کو ایسے لوگوں میں سے جو ہماری آیتوں کو جھٹلاتے تھے اس روز ہر جماعت اور ہر جتھہ الگ الگ ہوگا۔ ہر گناہ کرنے والوں کی جماعتیں اور جتھے الگ الگ ہوں گے پھر وہ جتھے روکے جاویں گے یعنی ایک جماعت کو دوسری جماعت کے آنے تک الگ جگہ کھڑا کیا جائے گا تاکہ سب جماعتیں ایک جگہ جمع ہوجائیں اور کوئی رہ نہ جائے یہاں تک کہ جب سب میدان حشر میں پہنچ جائیں گے تو حساب و کتاب شروع ہوجائے گا اور اللہ تعالیٰ فرمائے گا کیا تم ہی نے میری آیتوں کو جھٹلایا تھا حالانکہ تم نے میری آیتوں کو اچھی طرح سمجھا بوجھا ہی نہ تھا بغیر سوچے سمجھے ہی جھٹلانا شروع کردیا آخر بتلاؤ تو سہی کہ تم کرتے کیا تھے۔ بےسوچے سمجھے اعمال کفریہ میں مبتلا تھے یعنی سوائے تکذیب کے تمہارا کام ہی کیا تھا اور ان کے ظلم کی وجہ سے ان پر عذاب کا حکم واقع ہوجائے گا اور وہ بول بھی نہیں سکیں گے جرم ثابت ہوجائے گا اور دم مارنے کی مجال نہ ہوگی کیا نہیں دیکھا ہے حشر سے انکار کرنے والوں نے کہ ہم نے رات کو بنایا تاکہ سو کر اس میں آرام کریں اور دن کو بنایا روشن تاکہ دیکھ بھال کر اپنے کاروبار کریں مطلب یہ ہے کہ رات کا سونا موت کا نمونہ ہے اور صبح کی بیداری دوبارہ زندگی کا نمونہ ہے روزانہ حشر ونشر کا نمونہ دیکھتے ہیں اور پھر بھی حشر کا انکار کرتے ہیں۔ پس جو خدا روشنی کے بعد اندھیرا اور اندھیرے کے بعد روشنی لانے پر قادر ہے وہ بلاشہ مردوں کے دوبارہ زندہ کرنے پر بھی قادر ہے بیشک لیل ونہار کی اس طرح آمدو رفت میں حشر ونشر کی بڑی نشانیاں ہیں ان لوگوں کے لئے جو یقین لاتے ہیں رات کا سونا ایک قسم کی موت ہے سونے کے بعد انسان کو اس جہان کی کچھ خبر نہیں رہتی پس خدا تعالیٰ جس وقت چاہتا ہے تم کو سلاتا ہے اور جب چاہتا ہے تو تم کو جگا دیتا ہے اسی طرح وہ جب چاہے گا تو تم کو موت کے بعد اٹھا دے گا لہٰذا تم اس دنیوی زندگی کو بمنزلہ خواب کے سمجھو اور قبر سے اٹھنے کو بیداری سمجھو کہ سب چیزیں تمہاری آنکھوں کے سامنے روشن ہوجائیں گی۔
Top