Tafseer-e-Majidi - Al-A'raaf : 201
اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّهُمْ طٰٓئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَكَّرُوْا فَاِذَاهُمْ مُّبْصِرُوْنَۚ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : جو لوگ اتَّقَوْا : ڈرتے ہیں اِذَا : جب مَسَّهُمْ : انہیں چھوتا ہے (پہنچتا ہے طٰٓئِفٌ : کوئی گزرنے والا (وسوسہ) مِّنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان تَذَكَّرُوْا : وہ یاد کرتے ہیں فَاِذَا : تو فوراً هُمْ : وہ مُّبْصِرُوْنَ : دیکھ لیتے ہیں
یقیناً جو لوگ خدا ترس ہیں جب انہیں کوئی خطرہ شیطانی لاحق ہوتا ہے تو وہ یاد (الہی) میں لگ جاتے ہیں جس سے یکایک انہیں سوجھ آجاتی ہیں،294 ۔
294 ۔ یعنی حقیقت امر ان پر منکشف ہوجاتی ہے مکاید شیطانی ان پر واضح ہوجاتے ہیں۔ اور وہ شیطانی خطرہ ان پراثر نہیں کرتا۔ (آیت) ” تذکروا “۔ یاد الہی میں لگ جاتے ہیں۔ یعنی دعاء استعاذہ وغیرہ کے ذریعہ سے اللہ کی عظمت کا استحضار کرکے اپنے ایمان کو تازہ کرلیتے ہیں۔ (آیت) ” طئف من الشیطن “۔ یعنی شیطان کی تحریک پر ان کے دلوں میں غصہ واشتعال یا اور کسی امرناجائز وناپسندیدہ کا جذبہ بھڑکنے لگتا ہے۔ الشیطن سے یہاں مراد جنس شیاطین ہے نہ کہ ذات ابلیس۔ والمراد بالشیطن ولذلک جمع ضمیرہ (بیضاوی) انما جمع الضمیر فی اخوانھم والشیطان مفرد لان المراد بہ جنس (مدارک) محققین نے لکھا ہے کہ وسوسہ شیطانی سے تقوی میں کوئی نقصان نہیں آتا۔ اور اس محفوظیت کے تین درجہ ہیں۔ درجہ اعلی یہ کہ وسوسہ کا اثر ہی سرے سے نہ ہو، جیسا کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) خلیل اور حضرت اسمعیل (علیہ السلام) ذبیح کے واقعہ میں منقول ہے۔ اور درجہ اوسط یہ کہ وسوسہ اثر دکھائے مگر معاتنبیہ بھی ہوجائے اور وسوسہ کے شر سے حفاظت رہے۔ یہ مقام صدیقین کا ہے اور قصہ یوسف وزلیخا میں اس کی نظیر موجود ہے۔ اور درجہ ادنی محفوظیت کا یہ ہے کہ پھسلے مگر معا سنبھل جائے۔ ڈرے جھجکے اور باز آجائے۔ یہ مقام تائبین کا ہوتا ہے اور ان تینوں مقامات کا صاحب عارف، متقی، ولی، صاحب دل ہوتا ہے۔ مرشد تھانوی (رح) نے فرمایا کہ آیت میں کاملوں کو وسوسہ آنے کے امکان کی مع اس کے علاج یعنی استعاذہ اور تذکر امرونہی کی تصریح ہے۔
Top