Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 30
وَ قَالَتِ الْیَهُوْدُ عُزَیْرُ اِ۟بْنُ اللّٰهِ وَ قَالَتِ النَّصٰرَى الْمَسِیْحُ ابْنُ اللّٰهِ١ؕ ذٰلِكَ قَوْلُهُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ١ۚ یُضَاهِئُوْنَ قَوْلَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا مِنْ قَبْلُ١ؕ قٰتَلَهُمُ اللّٰهُ١٘ۚ اَنّٰى یُؤْفَكُوْنَ
وَقَالَتِ : اور کہا الْيَهُوْدُ : یہود عُزَيْرُ : عزیر ابْنُ اللّٰهِ : اللہ کا بیٹا وَقَالَتِ : اور کہا النَّصٰرَى : نصاری الْمَسِيْحُ : مسیح ابْنُ اللّٰهِ : اللہ کا بیٹا ذٰلِكَ : یہ قَوْلُهُمْ : ان کی باتیں بِاَفْوَاهِهِمْ : ان کے منہ کی يُضَاهِئُوْنَ : وہ ریس کرتے ہیں قَوْلَ : بات الَّذِيْنَ كَفَرُوْا : وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا (کافر) مِنْ قَبْلُ : پہلے قٰتَلَهُمُ : ہلاک کرے انہیں اللّٰهُ : اللہ اَنّٰى : کہاں يُؤْفَكُوْنَ : بہکے جاتے ہیں وہ
اور یہود کہتے ہیں کہ عزیر خدا کے فرزند (مجازی) ہیں،51 ۔ اور نصاری کہتے ہیں کہ مسیح خدا کے فرزند (مجازی) ہیں،52 ۔ یہ ان کا قول ہے (محض) ان کے منہ سے (بک دینے کا) ،53 ۔ یہ بھی انہیں لوگوں کی ریس کرنے لگے جو ان سے پہلے کافر ہوچکے ہیں،54 ۔ اللہ انہیں ہلاک کرے یہ کدھر بہکے جارہے ہیں،55 ۔
51 ۔ عزیر یا تو ریت کے تلفظ میں عزرا (متوفی غالبا 458 ؁ ق، م) یہود کے مذہبی نوشتوں میں زیادہ ” کاتب “ کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ بخت نصر (متوفی 56 1 ؁ ق، م) کے حملہ اور کامل تباہی اور بربادی کے بعد جب توریت کے نسخہ یہود کے پاس سے بالکل غائب ہوگئے تو انہی عزیر (عزرا) نے توریت کو ازسر نو اپنی یادداشت سے لکھ دیا اور اس لئے انہیں یہود مثیل موسیٰ تسلیم کرتے ہیں بلکہ بعض نے غلو کرکے اس مرتبہ سے بھی بڑھا دیا ہے۔ (آیت) ” ابن اللہ “۔ عربی میں ابن اور ولد دو الگ الگ مفہوم رکھنے والے لڑکے اور بیٹے کے مرادف لفظ ہیں اور انگریزی میں بھی ان کے مقابلہ میں دو اصطلاحین Son of god اور Child of god کی الگ الگ ہیں۔ ابن اللہ جو ترجمہ ہے۔ Child of god کا اس سے مراد صلبی یا حقیقی فرزند کے نہیں، بلکہ خدا کا لاڈلا یا چہیتا یا فرزند معنوی ومجازی ہے۔ جیسے قرآن ہی میں ایک دوسری جگہ اہل کتاب ہی کی زبان سے استعمال ہوا ہے۔ قالوا نحن ابنؤا اللہ واحباء ہ یہاں پر ابناء اللہ کے کھلے ہوئے یہی مجازی معنی ہیں۔ یہود اس معنی میں حضرت عزیر کو اپنا مطاع کل اور بارگاہ حق میں محبوب مطلق مانتے تھے، مزید تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ 52 ۔ مسیحیت کی دوگمراہیاں ایک شدید، دوسری شدید تر الگ الگ ہیں، ایک حضرت مسیح (علیہ السلام) کا اللہ کا ولد Son of god قرار دینا، اس کا ذکر قرآن مجید میں جہاں آیا ہے، اکثر بہت سخت وعید کے ساتھ آیا ہے (آیت) ” تکاد السموت یتفطرن منہ “۔ وغیرھا دوسری گمراہی حضرت مسیح (علیہ السلام) کو خدا کافرزند مجازی (Child of god) قرار دینا ہے۔ قرآن مجید نے اس عقیدہ کو ابن اللہیت سے تعبیر کیا ہے اور گویہ بھی بجائے خود شدید ہے پھر بھی ولد اللہیت کا عقیدہ اس سے اشد ہے۔ ملاحظہ وہ انگریزی تفسیر القرآن کا حاشیہ۔ ہمارے بعض پرانے مفسرین بھی اس نکتہ تک پہنچ گئے تھے کہ یہاں ابنیت سے مراد ابنیت نسبی ونسلی نہیں بلکہ لاڈ پیار والی ابنیت ہے اور یہ بھی کفر ہے۔ قال ابن عطیۃ ویقال ان بعضھم یعتقدھا بنوۃ حنو ورحمۃ وھذا المعنی ایضا لایحل ان تطلق البنوۃ علیہ وھو کفر (قرطبی) یقال ان بعضھم یعتقدھا بنوۃ حنو ورحمۃ (بحر) 53 ۔ (جس کا حقیقت اور واقعیت سے کوئی بھی تعلق نہیں) یہ فقرہ تاکید کلام کے طور رپر لایا گیا ہے۔ قیل معناہ التاکید (قرطبی) فقہاء نے یہاں سے یہ مسئلہ بھی خوب نکالا ہے کہ جس قول کو ابتداء زبان سے ادا کرنا کفر ہے، اسے تردید کی غرض سے دہرانا اور نقل کرنا بالکل درست ہے۔ فی ھذا من قول ربنادلیل علی ان من اخبر عن کفر غیرہ الذی لا یجوز لا حدان یبتدی بہ لاحرج علیہ لانہ انما ینطق بہ علی معنی الاستظام لہ والرد علیہ فلایمنع ذلک منہ (ابن العربی) 54 ۔ یعنی ان مہمل عقاید پر ان کے پاس نہ دلیل عقلی نہ نقلی۔ یہ تو محض ان جاہلی مشرک قوموں کی نقالی ہے جو باری تعالیٰ کی تجسیم کی قائل تھیں۔ اور عقیدۂ حلول یا اوتار کو ماننے والی تھیں۔ اشارہ خاص مشرکین یونان کی جانب ہے کہ انہیں کے ” حکماء فلاسفہ “ کے اقوال سے پہلی صدی عیسوی کے یہود ونصاری دونوں میں متاثر ہوگئے تھے، اور ان کی مشرکانہ تعلیمات کو برابر اپنے عقائد کا جزء بناتے چلے گئے تھے، مسیحت پر یونانی اور رومی مذہبوں کے گہرے اثر کی دریافت انیسویں صدی کے نصف آخر کے محققین وفضلاء کا خاص کارنامہ سمجھا جاتا ہے۔ قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے صدیوں قبل جبکہ کوئی نام بھی Higher Criticsm. کا نہیں جانتا تھا، ایک امی کی زبان سے دنیا کو اس حقیقت سے آشنا کردیا، ملاحظہ ہو، انگریزی تفسیر القرآن۔ 55 ۔ (کہ صاحب کتاب ہونے کی دولت سے مشرف ہوکر، انبیاء کی تعلیمات سے بہرہ اندوز ہونے کے باوجود، ایسے ایسے افتراء اللہ پر باندھتے چلے ہیں) (آیت) ” قتلھم اللہ “۔ فطرت بشری ہے کہ ایسے موقعوں پر سخت بیزاری اور غصہ ونفرت کی حالت میں زبان پر بےاختیار ایسے فقرے آجاتے ہیں کہ خدا انہیں غارت کرے۔ قرآن نے فطرت بشری کا لحاظ کرکے گویا یہ فقرے پڑھنے والے کی زبان سے ادا کرکے اس کے جذبات کی ترجمانی کا حق ادا کردیا۔
Top