Tafseer-e-Majidi - At-Tawba : 52
قُلْ هَلْ تَرَبَّصُوْنَ بِنَاۤ اِلَّاۤ اِحْدَى الْحُسْنَیَیْنِ١ؕ وَ نَحْنُ نَتَرَبَّصُ بِكُمْ اَنْ یُّصِیْبَكُمُ اللّٰهُ بِعَذَابٍ مِّنْ عِنْدِهٖۤ اَوْ بِاَیْدِیْنَا١ۖ٘ فَتَرَبَّصُوْۤا اِنَّا مَعَكُمْ مُّتَرَبِّصُوْنَ
قُلْ هَلْ : آپ کہ دیں کیا تَرَبَّصُوْنَ : تم انتظار کرتے ہو بِنَآ : ہم پر اِلَّآ : مگر اِحْدَى : ایک کا الْحُسْنَيَيْنِ : دو خوبیوں وَنَحْنُ : اور ہم نَتَرَبَّصُ : انتظار کرتے ہیں بِكُمْ : تمہارے لیے اَنْ : کہ يُّصِيْبَكُمُ : تمہیں پہنچے اللّٰهُ : اللہ بِعَذَابٍ : کوئی عذاب مِّنْ : سے عِنْدِهٖٓ : اس کے پاس اَوْ : یا بِاَيْدِيْنَا : ہمارے ہاتھوں سے فَتَرَبَّصُوْٓا : سو تم انتظار کرو اِنَّا : ہم مَعَكُمْ : تمہارے ساتھ مُّتَرَبِّصُوْنَ : انتظار کرنیوالے (منتظر)
آپ یہ (بھی) کہہ دیجیے کہ تم تو ہمارے حق میں دو بھلائیوں میں سے ایک (بھلائی) کے منتظر رہتے ہو،96 ۔ درآنحالیکہ ہم تمہارے حق میں انتظار اس کا کرتے رہتے ہیں کہ اللہ تم پر کوئی عذاب واقع کرے گا اپنی طرف سے یا ہمارے ہاتھوں سے،97 ۔ سو تم انتظار کرو ہم بھی تمہارے ساتھ (اپنے طور پر) منتظر ہیں،98 ۔
96 ۔ مطلب یہ ہوا کہ تم ہمارے لئے جن دو باتوں کو فرض کرسکتے ہو یعنی فتح یا موت وشکست تو ہمارے لئے تو دونوں پہلوؤں میں خیر ہی خیر ہے فتح کا خیر ہونا تو اجر اخروی اور منافع دنیوں دونوں کے اعتبار سے ظاہر ہی ہے۔ رہی مصیبت تو مومن کے حق میں وہ بھی عین رحمت ہے، رفع درجات وکفارۂ سیئات کا بہترین ذریعہ ! 97 ۔ (آیت) ” عذاب من عندہ “۔ یعنی کوئی بلائے آسمانی، بلاتوسط دست انسانی۔ (آیت) ” بایدینا “۔ یعنی کوئی سزا ہمارے ہاتھوں سے۔ 98 ۔ آیت میں رسول اللہ ﷺ کو ہدایت، دو جوابوں کی ہوئی۔ “ پہلے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ مالک وحاکم ہیں۔ حاکم ہونے کی حیثیت سے ان کو ہر تصرف کا اختیار ہے اس لئے ہم راضی ہیں۔ اور دوسرے جواب کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حکیم ہیں۔ اس مصیبت میں بھی ہمارے فائدہ کی رعایت کرتے ہیں۔ اس لئے ہم ہر حال میں فائدہ میں ہیں، بخلاف تمہارے کہ تمہاری خوشحالی کا انجام بھی وبال ونکال ہے اگر دنیا میں نہیں تو آخرت میں ضرور ہے “۔ (تھانوی) حاصل یہ کہ مومن کسی صورت میں بھی نقصان میں نہیں رہتا۔ اگر تدبیر و کوشش میں کامیابی ہوگئی تو فوری مسرت ظاہر ہے۔ اگر ناکامی ہوئی تو اجر وثواب، حسرت وتاسف میں بھی ہے۔ صوفیہ نے نکتہ یہ پیدا کیا ہے کہ قبض وبسط دونوں صورتیں عنایت الہی کی ہیں۔ طالب عارف کو مستقل مزاج ہر صورت میں رہنا چاہیے۔
Top