Tafseer-e-Mazhari - Al-Hijr : 88
لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْكَ اِلٰى مَا مَتَّعْنَا بِهٖۤ اَزْوَاجًا مِّنْهُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْهِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَكَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ
لَا تَمُدَّنَّ : ہرگز نہ بڑھائیں آپ عَيْنَيْكَ : اپنی آنکھیں اِلٰى : طرف مَا مَتَّعْنَا : جو ہم نے برتنے کو دیا بِهٖٓ : اس کو اَزْوَاجًا : کئی جوڑے مِّنْهُمْ : ان کے وَلَا تَحْزَنْ : اور نہ غم کھائیں عَلَيْهِمْ : ان پر وَاخْفِضْ : اور جھکا دیں آپ جَنَاحَكَ : اپنے بازو لِلْمُؤْمِنِيْنَ : مومنوں کے لیے
اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو (فوائد دنیاوی سے) متمتع کیا ہے تم ان کی طرف (رغبت سے) آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آنا
لا تمدن عینیک الی ما متعنا بہ ازواجا منھم آپ اس چیز کو نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جو کہ ہم نے مختلف قسم کے کافروں کو برتنے کیلئے دی ہے۔ خطاب رسول اللہ ﷺ کو ہے۔ آنکھیں اٹھانے سے مراد ہے : لالچ اور رغبت کے ساتھ نظر اٹھا کر دیکھنا۔ ازواج کا معنی ہے : اصناف یعنی قسم قسم کے کافروں کو جو ہم نے دنیا کی نعمتیں عطا کی ہیں ‘ آپ ان کی طرف رغبت اور طمع کی نظر سے نہ دیکھیں۔ آپ کو جو قرآن دیا گیا ہے ‘ اس کے مقابلے میں یہ ساری نعمتیں حقیر ہیں۔ اسحاق بن راہویہ نے مسند میں حضرت عبد اللہ بن عمرو بن عاص کا قول نقل کیا ہے کہ اگر اللہ نے کسی کو قرآن عطا فرما دیا ہو اور کسی دوسرے شخص کو دنیا عطا کی ہو اور حامل قرآن مال دار کی دنیا کو اس نعمت سے بہتر خیال کرے جو اسے دی گئی ہے تو اس نے بڑی (نعمت) کو چھوٹی اور چھوٹی کو بڑی قرار دے دیا (یعنی نعمت قرآن اعلیٰ ہے اور نعمت دنیا ادنیٰ ۔ جو شخص نعمت دنیا کو نعمت قرآن پر ترجیح دے ‘ اس نے ادنیٰ کو اعلیٰ اور اعلیٰ کو ادنیٰ بنا دیا) ۔ بغوی نے لکھا ہے کہ حدیث لیس منا من لم یتغن بالقراٰن کا مطلب سفیان بن عیینہ نے یہ بیان کیا ہے کہ جو شخص قرآن کی نعمت پا کر (ساری دنیا کی دولت سے) بےنیاز نہ ہوجائے ‘ وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ بخاری اور بیہقی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے اور امام احمد و ابو داؤد وابن حبان و حاکم نے حضرت سعد کی روایت سے اور ابو داؤد وابولبابہ کی وساطت سے عبدالمنذر کی روایت سے اور حاکم نے حضرت ابن عباس و حضرت عائشہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : کسی فاجر کی نعمت پر رشک نہ کرو۔ اللہ کے ہاں اس کا قاتل موجود ہے جو (کبھی) نہیں مرے گا۔ بغوی کی روایت یہ الفاظ آئے ہیں : کسی فاجر پر (اس کی) نعمت کی وجہ سے رشک نہ کرو۔ تم کو نہیں معلوم کہ مرنے کے بعد اس کو کیا پیش آئے گا۔ اللہ کے ہاں اس کا قاتل موجود ہے جو (کبھی) نہیں مرے گا۔ وہب بن منبہ کو جب اس حدیث کی اطلاع پہنچی تو انہوں نے ابوداؤد اعوار کو بھیج کر دریافت کرایا کہ نہ مرنے والے قاتل کا کیا مطلب ہے۔ عبد اللہ بن مریم نے کہا : اس سے مراد ہے دوزخ۔ امام احمد ‘ مسلم ‘ ترمذی ‘ ابن ماجہ اور بغوی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : اپنے سے نیچے والے کو دیکھو ‘ اوپر والے کو نہ دیکھو۔ اللہ کی جو نعمت تم کو حاصل ہے ‘ اس کو حقیر نہ سمجھنے کیلئے یہی (تدبیر) زیادہ مناسب ہے۔ ولا تحزن علیھم اور کافروں کا کچھ غم نہ کیجئے کہ یہ ایمان نہیں لائے۔ یا یہ مطلب ہے کہ تم کو جو کافروں کی طرح دنیا نہیں ملی ‘ اس کی وجہ سے کافروں کی نعمت پر کچھ رنج نہ کرو۔ واخفص جناحک للمؤمنین اور مسلمانوں پر شفقت رکھئے۔ یعنی مؤمنوں سے نرمی کیجئے ‘ ان کے ساتھ رحم کا برتاؤ رکھئے۔
Top