Tafseer-e-Mazhari - Al-Baqara : 142
سَیَقُوْلُ السُّفَهَآءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِیْ كَانُوْا عَلَیْهَا١ؕ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَ الْمَغْرِبُ١ؕ یَهْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
سَيَقُوْلُ : اب کہیں گے السُّفَهَآءُ : بیوقوف مِنَ : سے النَّاسِ : لوگ مَا : کس وَلَّاهُمْ : انہیں (مسلمانوں کو) پھیر دیا عَنْ : سے قِبْلَتِهِمُ : ان کا قبلہ الَّتِيْ : وہ جس کَانُوْا : وہ تھے عَلَيْهَا : اس پر قُلْ : آپ کہہ دیں لِلّٰہِ : اللہ کے لئے الْمَشْرِقُ : مشرق وَالْمَغْرِبُ : اور مغرب يَهْدِیْ : وہ ہدایت دیتا ہے مَنْ : جس کو يَّشَآءُ : چاہتا ہے إِلٰى : طرف صِرَاطٍ : راستہ مُّسْتَقِيمٍ : سیدھا
احمق لوگ کہیں گے کہ مسلمان جس قبلے پر (پہلے سے چلے آتے) تھے (اب) اس سے کیوں منہ پھیر بیٹھے۔ تم کہہ دو کہ مشرق اور مغرب سب خدا ہی کا ہے۔ وہ جس کو چاہتا ہے، سیدھے رستے پر چلاتا ہے
سَيَقُوْلُ السُّفَهَاۗءُ مِنَ النَّاسِ مَا وَلّٰىهُمْ عَنْ قِبْلَتِهِمُ الَّتِىْ كَانُوْاعَلَيْهَا (عنقریب کہیں گے بیوقوف لوگ کہ ان کو کس بات نے پھیر دیا ان کے اس قبلہ سے جس پر کہ یہ تھے) سُفَھَآءُ سے مراد (1) [ سفاہت کا لغوی معنی ہے خفت ‘ سبکی ‘ ہلکا ہونا۔ سفیہ : سبک سر ‘ بیوقوف ‘ قاصر الفہم۔ سفاہت عقل کے تین ہی سبب ہوتے ہیں اسلاف کی کو رانہ تقلید نابینا کچھ نہیں جانتا کہ اس کا راہبر اس کو کہاں لے جا رہا ہے۔ بیوقوف جاہل اسلاف کا اندھا پیرو ہوتا ہے سلف کے زمانہ کی اولیت کو وہ ان کی صداقت حق پرستی اور روشنی عقل کی دلیل خیال کرتا ہے اور کسی معاصر کی راہنمائی کو جو راہ اسلاف کے خلاف ہو کجروی خیال کرتا ہے۔ (2) جہالت ‘ خواہش نفس ‘ محبت اسلاف ‘ توہم پرستی ‘ قومی رسم و رواج ‘ خاندانی ‘ وطنی ‘ لسانی ‘ تہذیبی اور اسی طرح کے دوسرے بیہودہ جذبات اس کے اندر ضد پیدا کرتے ہیں اور ضد کی وجہ سے علمبردار ان صداقت اور اہل حق سے اس کو عناد ہوجاتا ہے اور یہی عناد اس کو سبک سر بنا دیتا ہے منافقین مشرکین اور یہود اسلاف کے بالکل مقلد بھی تھے اور اہل عناد بھی اور نظر و فکر سے روگرداں بھی۔] وہ ہیں جن کی عقل اپنے آباؤ اجداد کی تقلید اور نظر صحیح سے روگردانی اور عناد کے سبب سے کم ہوگئی یعنی منافقین اور یہود اور مشرکین مراد ہیں۔ قِبْلَتِھِمْ میں قبلہ سے مراد بیت المقدس ہے۔ اس پیشین گوئی کا فائدہ اور نکتہ یہ ہے کہ تحویل قبلہ ایک عظیم الشان انقلاب تھا اگر دفعتاً تحویل و تبدیل کا حکم نازل ہوتا تو طبیعتوں میں اس سے لگاؤ پیدا نہ ہوتا اور مِنْ وَجْہٍ انکار کی صورت پیدا ہوتی اس خبر دینے سے یہ بات جاتی رہی اور تحویل کا حکم دلوں میں خوب جم گیا نیز یہ قبل از وقت اطلاع اس اعتراض کے جواب کے لیے پہلے سے مستعد کردیتی ہے قبلہ اصل میں کسی شے کے سامنے ہونے کی حالت اور ہیئت کو کہتے ہیں جیسے جلسہ بیٹھنے کی حالت کو بولتے ہیں پھر بطور نقل کے اس مکان کو کہنے لگے جس کی طرف منہ کرکے نماز پڑھتے ہیں، یہود اور مشرکین نے بیت المقدس سے کعبہ کی طرف قبلہ کی تحویل پر اعتراض و طعن کیا تھا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی تھی۔ ابن جریر نے سدیؔ کے طریق سے با سانید مختلفہ روایت کی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی ﷺ کو کعبہ کی طرف توجہ کرنے کا حکم فرمایا تو مشرکین مکہ نے کہا کہ محمد کو اب اپنے دین میں خود کچھ حیرانی ہونے لگی ہے اور اب یہ سمجھ گئے ہیں کہ ہم لوگ راہ راست پر ہیں۔ اسی لئے اپنے قبلہ کو چھوڑ کر ہمارے قبلہ کو اختیار کرلیا اب عنقریب شدہ شدہ ہمارے دین میں شامل ہوجائیں گے۔ علامہ بغوی کہتے ہیں کہ تحویل قبلہ پر یہود نے معاذ بن جبل سے کہا محمد نے ہمارے قبلہ کو حسد سے ترک کردیا۔ قُلْ لِّلّٰهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۭ يَهْدِيْ مَنْ يَّشَاۗءُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ ( کہہ دیجئے خدا ہی کا ہے پورب اور پچھم چلاتا ہے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ پر) حاصل آیت کا یہ ہے کہ سب جہالت اور تمام مکان اللہ ہی کے ہیں اور استقبال قبلہ عبادات میں سے ہے اور عبادت میں اللہ تعالیٰ کے حکم پر اعتماد کرنا چاہئے کسی خصوصیت مکانی کا لحاظ اس میں معتبر نہیں تو ہم کو اللہ تعالیٰ نے کعبہ کی طرف منہ کرنے کا حکم دے دیا ہے اس لیے ہم حکم کا اتباع کرتے ہیں۔ صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ سے مراد وہ راہ ہے جسے اللہ تعالیٰ پسند کرے۔
Top