Tafseer-e-Mazhari - Al-Anbiyaa : 88
فَاسْتَجَبْنَا لَهٗ١ۙ وَ نَجَّیْنٰهُ مِنَ الْغَمِّ١ؕ وَ كَذٰلِكَ نُـْۨجِی الْمُؤْمِنِیْنَ
فَاسْتَجَبْنَا : پھر ہم نے قبول کرلی لَهٗ : اس کی وَنَجَّيْنٰهُ : اور ہم نے اسے نجات دی مِنَ الْغَمِّ : غم سے وَكَذٰلِكَ : اور اسی طرح نُْۨجِي : ہم نجات دیتے ہیں الْمُؤْمِنِيْنَ : مومن (جمع)
تو ہم نے ان کی دعا قبول کرلی اور ان کو غم سے نجات بخشی۔ اور ایمان والوں کو ہم اسی طرح نجات دیا کرتے ہیں
فاستبجنا لہ ونجینہ من الغم پھر ہم نے اس کی دعا قبول فرما لی اور اس کو غم سے نجات دے دی۔ یعنی گناہ کے غم سے اور مچھلی کا لقمہ بن جانے کے غم سے۔ وکذلک ننجی المؤمنین۔ اور اسی (کی) طرح ہم مؤمنوں کو نجات دیتے ہیں بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ وہ ہم کو پکاریں اور ہم سے فریاد کریں۔ رسول اللہ نے فرمایا مچھلی کے پیٹ کے اندر ذوالنون نے اپنے رب کو پکارا تھا ان کی دعا تھی لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینْ ۔َاس دعا کے ساتھ جو مسلمان کسی معاملہ میں اپنے رب کو پکارے گا اللہ اس کی دعا ضرور قبول فرمائے گا۔ رواہ احمد والترمذی والحاکم۔ وصحہ من حدیث سعد بن وقاص۔ حاکم کی ایک روایت ان الفاظ کے ساتھ آئی ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کیا میں تم کو ایسی چیز نہ بتادوں کہ اگر تم میں سے کسی پر کوئی دکھ یا مصیبت آپڑے اور وہ اس چیز کے ذریعہ سے اللہ سے دعا کرے تو اللہ ضرور اس کی مصیبت دور کر دے ‘ صحابہ نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ ضرور ارشاد فرمائیے۔ فرمایا وہ ذوالنون کی دعا ہے لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینْ ۔َ ۔ ابن جریر کی روایت ان الفاظ کے ساتھ ہے اللہ کا وہ نام کہ جس کے ذریعہ سے اگر اس سے دعا کی جائے تو وہ قبول فرما لیتا ہے اور اگر اس سے کچھ مانگا جاتا ہے تو عطا فرما دیتا ہے (ذوالنون کی دعا یعنی) لَا اِلٰہَ اِلَّا اَنْتَ سُبْحَانَکَ اِنِّیْ کُنْتُ مِنَ الظَّالِمِینْہے۔ سورۃ آل عمران کے آغاز میں ہم نے ذکر کردیا ہے کہ اللہ کا اسم اعظم تہلیل یعنی نفی و اثبات ہے اور لاَ اِلٰہَ الاَّ اللّٰہُسے لاَ اِلٰہَ الاَّ ہُوَاور لاَ اِلٰہَ اِلَّاَ اْنَت کا درجہ بہت اونچا ہے (یعنی ضمیر غائب و حاضر کا ذکر صراحۃً لفظ اللہ کو ذکر کرنے سے افضل ہے) کیونکہ لفظ (اللہ اگرچہ ذات پر دلالت کرتا ہے لیکن اس کے اندر صفات کمالیہ کا لحاظ ضرور ہوتا ہے اور اللہ اس ذات کا نام ہے جو تمام صفات کمالیہ کو جامع ہے) اور ضمیریں خالص ذات پر دلالت کرتی ہیں ‘ پھر ضمیروں میں بھی خطاب کی ضمیر کا درجہ غائب کی ضمیر سے اعلیٰ ہے کیونکہ خطاب کے اندر کامل ظہور ہوتا ہے (جس میں شرک کی احتمالی بو بھی باقی نہیں رہتی اور غائب کی ضمیر میں ابہام ہوتا ہے۔ مترجم) ۔ حضرت یونس ( علیہ السلام) کو کب پیغمبر بنایا گیا بغوی نے لکھا ہے کہ سعید بن جبیر کی روایت سے حضرت ابن عباس ؓ : کا قول منقول ہے کہ مچھلی کے پیٹ سے رہائی کے بعد حضرت یونس ( علیہ السلام) کو پیغمبر بنایا گیا کیونکہ سورت الصافات میں پہلے فَنَبَذْنَاہ بالْعَرَاءِ وَہُوَ سَقِیْمٌکے بعد وَاَرْسَلْنَاہُ اِلٰی مِأَۃِ اَلْفٍ اَوْ یَزِیْدُوْنَآیا ہے (اور ترتیب ذکر ترتیب واقعہ پر دلالت کرتی ہے معلوم ہوا کہ پہلے مچھلی نے حضرت یونس کو خشک زمین پر اگلا پھر اللہ نے ایک لاکھ یا اس سے زیادہ آدمیوں کی ہدایت کے لئے آپ کو پیغمبر بنا کر بھیجا۔ مترجم) ۔ حضرت مفسر (رح) نے فرمایا میں کہتا ہوں یہ استدلال کمزور ہے کیونکہ دو واقعوں کے درمیان واو عطف کو لانا ترتیب واقعات پر دلالت نہیں کرتا صرف اتنی بات بتاتا ہے کہ دونوں واقعے ہوئے کون پہلے ہوا واو عاطفہ سے اس کا پتہ نہیں چلتا دوسرے علماء کہتے ہیں کہ آپ کی رسالت مچھلی کے نگلنے اور اگلنے سے پہلے ہی تھی کیونکہ اللہ نے فرمایا وَاِنَّ یُوْنُسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِذَا اَبِقَ اِلَی الْفُلْکِ الْمَشْحُوْنِاور یونس پیغمبروں میں تھے جب وہ بھری ہوئی کشتی کی طرف بھاگے تھے۔
Top