Tafseer-e-Mazhari - Al-Muminoon : 46
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَۚ
اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ عَالِيْنَ : سرکش
(یعنی) فرعون اور اس کی جماعت کی طرف، تو انہوں نے تکبر کیا اور وہ سرکش لوگ تھے
الی فرعون و ملاۂ فاستکبروا وکانوا قوما عالین۔ فرعون اور اس کے درباریوں کے پاس پیغمبر بنا کر بھیجا سو انہوں نے (ماننے اور تصدیق کرنے سے) تکبر کیا اور وہ لوگ تھے ہی متکبر۔ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍکھلی دلیل ‘ جو مقابل حریف کو لا جواب بنا دینے والی ہو۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ سُلْطٰنٍ مُّبِیْنٍسے مراد عصا ہو سب سے پہلا معجزہ یہی تھا ‘ اسی لئے اس کو مستقل طور پر ذکر کیا۔ اسی سے متعدد معجزات صادر ہوئے تھے ‘ مثلاح وہ سانپ بن جاتی تھی۔ جادوگروں نے رسیوں سے جو سانپ بنائے تھے ان کو یہ لاٹھی نگل گئی تھی۔ اسی کی ضرب سے سمندر کا پانی پھٹ کر دو ٹکڑے ہوگیا تھا ‘ اس کی ضرب سے پتھر سے چشمے جاری ہوجاتے تھے۔ یہ پڑاؤ کرنے کے وقت چاروں طرف گھوم کر لشکر کی حفاظت کرتی تھی۔ یہی رات میں شمع کا کام دیتی تھی ‘ یہی پھولدار درخت بن گئی تھی یہی چشموں کے اندر سے پانی نکالنے کے لئے رسی ڈول کا کام دیتی تھی۔ یہ بھی ہوسکتا ہے کہ آیات سے مراد دلائل ہوں اور سلطٰن سے مراد معجزات ہوں ‘ یا دونوں سے مراد معجزات ہوں۔ یہ سب نشان نبوت تھے اور حضرت موسیٰ کے دعوے کی دلیل تھے۔ (عام اہل تفسیر کے نزدیک آیات سے مراد نو معجزات نہیں بلکہ احکام مراد ہیں۔ مترجم) ۔ عَالِیْنَ یعنی وہ لوگ مغرور تھے ‘ لوگوں پر جبر اور ظلم کیا کرتے تھے۔
Top