Ruh-ul-Quran - An-Nisaa : 46
اِلٰى فِرْعَوْنَ وَ مَلَاۡئِهٖ فَاسْتَكْبَرُوْا وَ كَانُوْا قَوْمًا عَالِیْنَۚ
اِلٰى : طرف فِرْعَوْنَ : فرعون وَمَلَا۟ئِهٖ : اور اس کے سردار فَاسْتَكْبَرُوْا : تو انہوں نے تکبر کیا وَكَانُوْا : اور وہ تھے قَوْمًا : لوگ عَالِيْنَ : سرکش
فرعون اور اس کے سرداروں کی طرف، مگر انہوں نے بھی اپنی بڑائی کا گھمنڈ کیا (اور وہ حق کے منکر ہوگئے) اور وہ تھے بھی بڑے سرکش لوگ،3
62 اِعراض و استکبار محرومیوں کی محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں کے مقابلے میں ان لوگوں نے اعراض و استکبار سے کام لیا اور اس طرح وہ دائمی تباہی اور ہلاکت کے گڑھے میں گرگئے۔ سو استکبار یعنی اپنی بڑائی کا گھمنڈ محرومی کا ایک بنیادی سبب ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ کیونکہ ایسا شخص اپنی بڑائی کے گھمنڈ کی بنا پر حق بات سننے اور ماننے کو تیار ہی نہیں ہوتا۔ اور وہ پوری ہٹ دھرمی کے ساتھ حق سے منہ موڑ لیتا ہے۔ سو اعراض و استکبار محرومیوں کی محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اللہ ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے ۔ آمین۔ 63 حق کے مقابلے میں سرکشی باعث محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے فرعونیوں کی سرکشی کی تصریح فرما دی گئی اور اس سے واضح ہوجاتا ہے کہ حق کے مقابلے میں سرکشی باعث محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ " بڑے ہی سرکش لوگ تھے "۔ یعنی ان کی سرکشی ان کی طبیعت اور مزاج کا ایک حصہ تھی۔ اور مال و دولت اور حکومت و اقتدار کی کرسی سے ان کی سرکشی میں اور اضافہ ہوگیا تھا۔ اور اپنی سرکشی کی بناء پر دوسروں پر ظلم و زیادتی کا ارتکاب کرنا ان کا عام وطیرہ تھا۔ (مراغی وغیرہ) ۔ سو سرکشی ایسا منبع شر و فساد ہے کہ اس کی بنا پر انسان حدود بندگی سے نکل کر بدترین مخلوق " شر البریۃ " بن جاتا ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ۔ { وَکَانُوْا قَوْمًا عَالِیْن } ۔ سے ان کے قومی مزاج کا ذکر فرمایا گیا ہے۔ یعنی ان کا یہ استکبار ان کے کسی وقتی ہیجان و اشتعال کا نتیجہ نہیں تھا بلکہ وہ تھے ہی سرکش اور مغرور لوگ۔ اور فرعونیوں کے اسی قومی مزاج کی بنا پر حضرت موسیٰ کو ان کی طرف بھیجا گیا تھا۔ جیسا کہ دوسرے مقام پر اس بارے ارشاد فرمایا گیا ۔ { اِذْہَبْ اِلٰی فِرْعَوْنَ اِنَّہُ طَغٰی } ۔ ( طہ : 34) " جاؤ فرعون کے پاس کہ وہ بہت سرکش ہوگیا ہے " ۔ اللہ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر مستقیم وثابت قدم رکھے ۔ آمین۔
Top