Tafseer-e-Mazhari - Al-Ankaboot : 69
وَ الَّذِیْنَ جَاهَدُوْا فِیْنَا لَنَهْدِیَنَّهُمْ سُبُلَنَا١ؕ وَ اِنَّ اللّٰهَ لَمَعَ الْمُحْسِنِیْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ جَاهَدُوْا : اور جن لوگوں نے کوشش کی فِيْنَا : ہماری (راہ) میں لَنَهْدِيَنَّهُمْ : ہم ضرور انہیں ہدایت دیں گے سُبُلَنَا ۭ : اپنے راستے (جمع) وَاِنَّ : اور بیشک اللّٰهَ : اللہ لَمَعَ الْمُحْسِنِيْنَ : البتہ ساتھ ہے نیکوکاروں کے
اور جن لوگوں نے ہمارے لئے کوشش کی ہم اُن کو ضرور اپنے رستے دکھا دیں گے۔ اور خدا تو نیکو کاروں کے ساتھ ہے
والذین جاھدوا فینا لنھدینھم سبلنا . اور جن لوگوں نے اپنے مقدور بھر ہماری خوشنودی طلب کرنے ‘ ہمارے دین کی مدد کرنے اور ہمارے اوامرو نواہی کے مطابق عمل کرنے کی کوشش کی ہم ان کو اپنے راستے بتا دیتے ہیں۔ اَلَّذِیْنَ جَاھَدُوْا جہاد کا معنی ہے مقدور بھر کوشش کرنا۔ مراد یہ ہے کہ جن لوگوں نے اپنی انتہائی طاقت بھر کافروں سے لڑنے اور نفسانی خواہشات کی مخالفت کرنے کی کوشش کی۔ فِیْنَا ہمارے اندر یعنی ہماری مرضی کی طلب ‘ ہمارے دین کی مدد اور ہمارے اوامرو نواہی کی تعمیل کرنے میں۔ سُبْلَنَا اپنے راستوں کی یعنی اپنی بارگاہ تک پہنچنے کے راستوں کی۔ اللہ کی بارگاہ تک رسائی بےکیف ہے (اس کی کیفیت بیان نہیں کی جاسکتی) یا یہ معنی ہے کہ ہم نیکی کے راستے ان کو دکھا دیتے ہیں اور ان راستوں پر چلنے کی توفیق عنایت کردیتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ اھْتَدَوْا زَادَھُمْ ھُدًی اور جو لوگ ہدایت پالیتے ہیں اللہ ان کی ہدایت میں اضافہ کردیتا ہے۔ حضرت ابو درداء راوی ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا : فرمان کا معنی یہ ہے کہ جو لوگ اپنے جانے ہوئے راستوں پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو (آگے) وہ راستے بتا دیتے ہیں جن کو وہ نہیں جانتے۔ عطا نے آیت کا یہ مطلب بیان کیا کہ جو لوگ ہماری رضامندی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ہم ان کو اپنے عطا کردہ ثواب کے راستے بتا دیتے ہیں۔ جنید نے کہا : جن لوگوں نے توبہ کی کوشش کی ہم ان کو اخلاص کے راستے بتا دیتے ہیں۔ سفیان بن عیینہ نے کہا : جن لوگوں میں اختلاف ہو تو تم سرحد والوں کو دیکھو (یعنی ان کے راستوں پر چلو) کیونکہ اللہ نے فرمایا ہے : وَالَّذِیْنَ جَاھَدُوْا فِیْنَا لَنَھْدِیَنَّھُمْ سُبُلَنَا (گویا آپ کے نزدیک آیت میں جہاد سے مراد کفار سے جہاد کرنا ہے) ۔ حسن نے کہا : سب سے اعلیٰ جہاد نفسانی خواہشات کی مخالفت ہے۔ سہیل بن عیاض نے کہا : جن لوگوں نے طلب علم میں جہاد کیا ہم ان کو علم کے مطابق عمل کرنے کے راستے بتا دیتے ہیں۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا : جن لوگوں نے سنت کو قائم کرنے کی کوشش کی ہم ان کو جنت کے راستے بتا دیتے ہیں۔ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص عمل کرتا ہے اس پر جس کو وہ جانتا ہے تو اللہ نامعلوم چیز کا علم اس کو عطا فرما دیتا ہے۔ وان اللہ لمع المحسنین اور بلاشبہ اللہ نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ یعنی دنیا میں اللہ کی مدد اور اعانت اور آخرت میں ثواب اور مغفرت نیکی کرنے والوں کے ساتھ ہے۔ صوفیہ نے کہا : اہل احسان کے ساتھ اللہ ہے لیکن اس کی معیت کی کیفیت ناقابل بیان ہے۔ اہل بصیرت ہی اس کو وجدانی طور پر جانتے ہیں۔ بجائے ضمیر کے لفظ اَ اللہ کی صراحت مفید تاکید ہے۔ وا اللہ اعلم۔ بحمد اللہ تفسیر مظہری کا سورة عنکبوت کی تفسیر کا حصہ 9/ رجب 1206 ھ ؁ کو ختم ہوا۔ اللہ کریم کا شکر ہے اور اسی کے لئے حمد سزاوار ہے کہ اس نے اپنی رحمت سے سورة عنکبوت کی تفسیر مظہری کا ترجمہ پورا کرنے کی توفیق عنایت فرمائی اور 3/ ذی الحجہ 1390 ھ ؁ کو یہ حصہ ختم ہوا۔
Top