Tafseer-e-Mazhari - Al-Maaida : 119
قَالَ اللّٰهُ هٰذَا یَوْمُ یَنْفَعُ الصّٰدِقِیْنَ صِدْقُهُمْ١ؕ لَهُمْ جَنّٰتٌ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ خٰلِدِیْنَ فِیْهَاۤ اَبَدًا١ؕ رَضِیَ اللّٰهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوْا عَنْهُ١ؕ ذٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ
قَالَ : فرمایا اللّٰهُ : اللہ هٰذَا : یہ يَوْمُ : دن يَنْفَعُ : نفع دے گا الصّٰدِقِيْنَ : سچے صِدْقُهُمْ : ان کا سچ لَهُمْ : ان کے لیے جَنّٰتٌ : باغات تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : ان کے نیچے الْاَنْھٰرُ : نہریں خٰلِدِيْنَ : ہمیشہ رہیں گے وہ فِيْهَآ : ان میں اَبَدًا : ہمیشہ رَضِيَ : راضی ہوا اللّٰهُ : اللہ عَنْهُمْ : ان سے وَرَضُوْا : اور وہ راضی ہوئے عَنْهُ : اس سے ذٰلِكَ : یہ الْفَوْزُ : کامیابی الْعَظِيْمُ : بڑی
خدا فرمائے گا کہ آج وہ دن ہے کہ راست بازوں کو ان کی سچائی ہی فائدہ دے گی ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں ابدالآباد ان میں بستے رہیں گے خدا ان سے خوش ہے اور وہ خدا سے خوش ہیں یہ بڑی کامیابی ہے
قال اللہ ہذا یوم ینفع الصدقین صدقہم اللہ فرمائے گا یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو ان کی سچائی فائدہ رساں ہوگی یوم یا منصوب ہے خواہ اس کو قال کا مفعول فیہ قرار دیا جائے یعنی عیسیٰ ( علیہ السلام) کا یہ کلام قیامت کے دن ہوگا خواہ ہذا کو مبتدا اور اس کی خبر کو محذوف قرار دیا جائے یعنی عیسیٰ ( علیہ السلام) نے جو کچھ کہا وہ حق ہے اللہ یہ بات قیامت کے دن فرمائے گا اس صورت میں حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قول کی تصدیق اور امت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے لئے مزید سرزنش ہوگی۔ خواہ یوں کہا جائے کہ ہذا مبتدا ہے اور یوم حقیقت میں خبر مرفوع تھا مگر چونکہ اس کی اضافت مبنی کی طرف ہے اس لئے فتح پر مبنی ہوگیا۔ اس پر یہ شبہ ہوسکتا ہے کہ یوم کی اضافت تو صیغۂ مضارع کی طرف ہے اور مضارع معرب ہے مگر حقیقت میں یہ شبہ غلط ہے کیونکہ یوم کی اضافت پورے جملہ کی طرف ہے اور جملہ مبنی ہوتا ہے۔ جمہور نے یوم کو خبر ہونے کی بنیاد پر مرفوع بصورت مضموم پڑھا ہے یعنی بغیر تنوین کے۔ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قول سے بظاہر یہ سمجھا جاسکتا تھا کہ کافروں کے لئے حضرت دعاء مغفرت کر رہے ہیں اس خیال کو دور کرنے کے لئے فرما دیا کہ آج سچوں کی سچائی فائدہ رساں ہوگی کاذب کافروں کے لئے کوئی فائدہ نہیں ان کی مغفرت نہ ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے قول سے بظاہر جو خوف مترشح ہو رہا ہے اس کو دور کرنے کیلئے فرمایا ہو کہ آج سچوں کو ان کی سچائی فائدہ پہنچائے گی (اور تم سچے ہو تم کو کوئی خوف نہ کرنا چاہئے) مطلب یہ کہ دنیا میں جو لوگ (اعتقاد اور قول و عمل کے لحاظ سے) سچے تھے آخرت میں ان کی سچائی مفید ہوگی اور جو دنیا میں جھوٹے تھے وہ آخرت میں سچ بولیں اور لم نک من المصلین ولم نک نطعم المسکین کہیں اور شیطان اقرار کرے کہ ان اللہ عدوکم وعد الحق ووعدتکم۔۔ یا آخرت میں بھی جھوٹ بولیں اور کہیں وا اللہ ربنا ماکنا مشرکین بہرحال کوئی بات مفید نہ ہوگی ان کے منہ پر مہر کردی جائے گی اور ہاتھ پاؤں شہادت دیں گے جس سے ان کی رسوائی اور روسیاہی ہوگی۔ بعض اہل تفسیر کے نزدیک صادقین سے مراد انبیاء ہیں۔ کلبی نے کہا مؤمنوں کو ان کا ایمان فائدہ پہنچائے گا (یعنی صادقین سے مراد مؤمن ہیں) عطاء کے نزدیک یوم ینفع سے اسی دنیا کا دن مراد ہے کیونکہ آخرت تو دارالجزاء ہے دارالعمل نہیں ہے۔ لہم جنت تجری من تحتہا الانہر خلدین فیہا ابدا ان کی سچائی ان کو جنتیں دلوائی گئی جن کے (درختوں اور محلات کے) نیچے نہریں بہتی ہوں گی ان جنتوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے۔ یہ نفع اور ثواب کا بیان ہے۔ ؓ ورضوا عنہ اللہ ان سے راضی ہوگا اور وہ اللہ سے خوش۔ کیونکہ محبت دونوں جانب سے ہوگی۔ صوفیہ نے یہی تشریح کی ہے لیکن عام اہل تفسیر نے توضیح مطلب اس طرح کی ہے کہ اللہ ان کی مخلصانہ کوشش کو پسند فرمائے گا یہ اللہ کی رضامندی ہوگی اور اللہ کی طرف سے عطا کئے ہوئے کامل ثواب سے اہل جنت خوش ہوں گے یہ ان کی رضامندی ہوگی یعنی ایک طرف سے سعی مشکور ہوگی اور دوسری طرف سے جزاء موفور۔ ذلک الفوز العظیم یہی بڑے درجہ کی کامیابی ہے کیونکہ یہ کامیابی لازوال ہے اور دنیوی کامیابی فنا پذیر ہے۔ اس سے آگے آیات میں اللہ نے اپنی ذات کی عظمت کا اظہار اور عیسائیوں کے عقیدہ کا ابطال فرمایا ہے۔
Top