Tafseer-Ibne-Abbas - An-Nahl : 89
قَالُوْا یٰمُوْسٰۤى اِنَّا لَنْ نَّدْخُلَهَاۤ اَبَدًا مَّا دَامُوْا فِیْهَا فَاذْهَبْ اَنْتَ وَ رَبُّكَ فَقَاتِلَاۤ اِنَّا هٰهُنَا قٰعِدُوْنَ
قَالُوْا : انہوں نے کہا يٰمُوْسٰٓى : اے موسیٰ اِنَّا : بیشک ہم لَنْ نَّدْخُلَهَآ : ہرگز وہاں داخل نہ ہوں گے اَبَدًا : کبھی بھی مَّا دَامُوْا : جب تک وہ ہیں فِيْهَا : اس میں فَاذْهَبْ : سو تو جا اَنْتَ : تو وَرَبُّكَ : اور تیرا رب فَقَاتِلَآ : تم دونوں لڑو اِنَّا : ہم ھٰهُنَا : یہیں قٰعِدُوْنَ : بیٹھے ہیں
وہ بولے کہ موسیٰ! جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جا سکتے (اگر لڑنا ہی ضرور ہے) تو تم اور تمہارا خدا جاؤ اور لڑو ہم یہیں بیٹھے رہیں گے
قالوا یموسی انا لن ندخلہا ابدا ما داموا فیہا اور کہنے لگے موسیٰ جب تک وہ اس بستی میں ہیں ہم ہرگز کبھی وہاں نہیں جائیں گے۔ فاذہب انت وربک فقاتلا انا ہہنا قاعدون تم اور تمہارا خدا جا کر ان سے لڑیں ہم تو یہیں بیٹھے ہیں (یہاں سے نہیں ہلیں گے) ۔ بعض علماء نے لکھا ہے کہ بنی اسرائیل نے یہ بات خدا اور رسول کی اہانت کے طور پر کہی تھی ان کو اللہ اور اس کے رسول کی کوئی پرواہ نہ تھی۔ (میں کہتا ہوں) یہ بات غلط ہے ورنہ ان کا کافر ہونا لازم آجائے گا (اہانت خدا اور رسول موجب کفر ہے) اور کافر ہونے کے بعد حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) کے ساتھ رہنا ناممکن تھا۔ وہ لوگ تو حضرت کے ساتھی تھی من وسلویٰ انہیں پر اترا تھا ‘ ابر انہی پر سایہ فگن رہتا تھا ‘ پتھر سے چشمے انہی کے لئے بہائے گئے تھے۔ اس لئے آیت کا مطلب یہ ہے کہ آپ جائیں اللہ آپ کی مدد کرے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ؓ نے فرمایا مقداد بن اسود ؓ : کو ایک مقام ایسا حاصل ہوگیا کہ کاش مجھے وہ حاصل ہوجاتا تو مجھے ہر چیز سے زیادہ محبوب ہوتا۔ مقداد ؓ : کو حضور ﷺ نے مشرکوں کے مقابلہ کی دعوت دی تو مقداد ؓ نے عرض کیا ہم وہ نہیں کہ موسیٰ ( علیہ السلام) کی قوم کی طرح اذہب انت وربک فقاتلا انا ہہنا قاعدون کہہ دیں بلکہ ہم حضور کے دائیں بائیں اور آگے پیچھے ہو کر (دشمن سے) لڑیں گے میں نے دیکھا کہ یہ الفاظ سن کر حضور ﷺ کا چہرۂ مبارک کھل گیا اور آپ ﷺ خوش ہوگئے (رواہ البخاری وغیرہ) جب بنی اسرائیل نے اللہ اور اللہ کے رسول کے حکم کی خلاف ورزی کی اور یوشع و کالب کو مار ڈالنے کا ارادہ کیا تو حضرت موسیٰ ( علیہ السلام) نے غضب ناک ہو کر دعا کی (اور)
Top