Tafseer-e-Mazhari - At-Tur : 23
یَتَنَازَعُوْنَ فِیْهَا كَاْسًا لَّا لَغْوٌ فِیْهَا وَ لَا تَاْثِیْمٌ
يَتَنَازَعُوْنَ : ایک دوسرے سے چھینیں گے فِيْهَا : اس میں كَاْسًا : جام میں۔ پیالوں میں لَّا لَغْوٌ فِيْهَا : نہ کوئی بےہودہ گوئی ہوگی اس میں وَلَا تَاْثِيْمٌ : اور نہ کوئی گناہ
وہاں وہ ایک دوسرے سے جام شراب جھپٹ لیا کریں گے جس (کے پینے) سے نہ ہذیان سرائی ہوگی نہ کوئی گناہ کی بات
میتنا زعون فیھا کا سا لا لغو فیھا ولا تاثیم . اور وہ آپس میں (خوش طبعی کے طور پر) شراب بھرے پیالوں کی چھینا جھپٹی بھی کریں گے ‘ اس میں نہ بک بک لگے گی اور نہ کوئی بیہودہ بات ہوگی۔ یَتَنَازَعُوْنَ : یہ لفظ نزع سے ماخوذ ہے۔ نزع کا معنی ہے کسی کے ہاتھ سے کھینچ لینا ‘ (چھین لینا) اس جگہ باب تفاعل ثلاثی مجرد کے معنی میں ہے یعنی یَتَنَازَعُوْنَ کا معنی ہے ینزعون من ید الساقی : ساقی کے ہاتھ سے لے لیں گے۔ کاسًا : مشروب سے بھرے ہوئے پیالے ‘ برتن میں بھرے ہوئے مشروب کو بھی کاس کہا جاتا ہے اور برتن کو بھی۔ لاَ لَغْوٌ : قتادہ نے لغو کا ترجمہ کیا ‘ باطل۔ مقاتل بن حبان نے کہا : بیہودہ بکواس۔ سعید بن مسیّب نے کہا : بیہودہ کلام۔ ابن زید نے کہا : گالی گلوچ ‘ جھگڑے۔ عنبی نے کہا : جنت کی شراب سے ہوش و حواس میں خرابی نہیں آئے گی کہ بیہودہ بکواس کرنے لگیں۔ وَلاَ تَاْثِیْمٌ : زجاج نے کہا : دنیا میں شراب پینے کے بعد شرابیوں میں جو بکواس ہوتی ہے ‘ اہل جنت میں شراب پینے کے بعد ایسی کوئی بکواس اور موجب گناہ حرکت نہیں ہوگی۔ بعض اہل تفسیر نے کہا : لا تاثیم : کا یہ مطلب ہے کہ جنت کی شراب پینے سے اہل جنت گناہ گار نہ ہوں گے ‘ واللہ اعلم۔
Top