Tafseer-e-Mazhari - Ar-Rahmaan : 46
وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ
وَلِمَنْ خَافَ : اور واسطے اس کے جو ڈرے مَقَامَ رَبِّهٖ : اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے جَنَّتٰنِ : دو باغ ہیں
اور جو شخص اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرا اس کے لئے دو باغ ہیں
ولمن خاف مقام ربہ جنتن اور جو شخص اپنے رب کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا رہتا ہے ‘ اس کے لیے دو باغ ہوں گے ‘ ابن ابی حاتم نے ابن سوذب کی روایت سے لکھا ہے کہ یہ آیت حضرت ابوبکر صدیق ؓ کے متعلق نازل ہوئی۔ مقام یا ظرف مکان ہے (کھڑے ہونے کی جگہ) یعنی وہ جگہ جہاں بندے حساب دینے کے لیے کھڑے ہوں گے ‘ یا رب کے سامنے حساب فہمی کے لیے کھڑے ہونے کی جگہ۔ قتادہ نے کہا : مؤمن اس مقام سے ڈرتے ہیں اس لیے خاص اللہ کے لیے عمل کرتے اور شب و روز اس کی اطاعت میں سرگرم رہتے ہیں یا مقام مصدر میمی ہے اس وقت مقام (بمعنی قیام) کا معنی ہوگا۔ نگرانی ‘ دیدبانی۔ عربی محاورہ ہے : قام علیہ ‘ اسکی نگرانی رکھی۔ بلفظ قیام اس معنی میں دوسری آیت میں آیا ہے : افمن ھو قائم علی کل نفس بما کسبت۔ یا مقام بمعنی قیام سے رب کے سامنے حساب دینے کے لیے کھڑے ہونا مراد ہے۔ بعض اہل علم کے نزدیک لفظ مقام زائد ہے یعنی جو اپنے رب سے ڈرتا رہتا ہے۔ ضحاک نے کہا ہے دو جنتوں کا انعام ان لوگوں کو ملے گا جو ظاہری اور باطنی نگرانی رکھتے اور اللہ سے ڈرتے ہیں ‘ حرام فعل کا ارتکاب ‘ اللہ کے خوف سے ترک کردیتے ہیں اور جو نیکی کرتے ہیں وہ محض اللہ کے لیے کرتے ہیں ‘ وہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ کے سوا کوئی ان کے عمل خیر سے واقف ہو۔ آیت کے دو معنی ہوسکتے ہیں : ایک معنی جو ظاہر ہے کہ رب کے سامنے کھڑے ہونے سے تمام ڈرنے والوں کو اجتماعاً دو جنتیں (خصوصیت کے ساتھ) عطا کی جائیں گی۔ مقاتل نے کہا : ایک جنت عدن اور دوسری جنت نعیم (یعنی مذکورہ اشخاص کو جنت عدن اور جنت نعیم میں داخل کیا جائے گا) ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ ایک جنت ان آدمیوں کو دی جائے گی جو رب سے خائف ہیں اور دوسری جنت ان جنات کو جو اللہ سے ڈرتے ہیں۔ خطاب چونکہ دونوں گروہوں کو ہے اس لیے ہر فریق کے لیے ایک ‘ ایک جنت ہوگی۔ دوسرا معنی یہ ہے کہ اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ہر خائف کو دو ‘ دو باغ دیئے جائیں گے۔ یہ تشریح بعید از فہم ہے۔ اس مطلب پر جتنے لوگ اللہ کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرنے والے ہوں گے ‘ ان سے دوگنی تعداد جنتوں کی ہوگی تاکہ ہر ایک کو دو ‘ دو باغ دیئے جاسکیں بلکہ ہر ایک شخص کے لیے چار چار باغ ہونا ضروری ہوگا کیونکہ اگلی آیت : ومن دونہما جنتان کا عطف ولمن خاف مقام ربہ جنتان پر ہے۔ اس طرح ہر شخص کے حصے میں چار جنتیں آئیں گی ‘ حالانکہ احادیث میں آیا ہے کہ جنتیں کل چار ہوں گی۔ دو چاندی کی ‘ ان دونوں میں جو برتن اور دوسری چیزیں ہوں گی وہ چاندی کی ہوں گی اور دو جنتیں سونے کی ‘ ان دونوں میں جو برتن اور دوسری چیزیں ہوں گی وہ سب سونے کی ہوں گی۔ اہل جنت اور اللہ کے درمیان صرف عظمت الٰہیہ کی چادر حائل ہوگئی اور وہ اپنے رب کو جنت عدن میں دیکھیں گے۔ (رواہ الشیخان فی الصحیحین عن ابی موسیٰ الاشعری) بغوی نے حضرت عبداللہ بن قیس کی روایت سے اور احمد و طیالسی و بیہقی نے حضرت ابو موسیٰ کی روایت سے حدیث مذکور ان الفاظ کے ساتھ بیان کی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جنات الفردوس چار ہیں ‘ دو سونے کی جن کے سارے زیور ‘ برتن اور تمام چیزیں سونے کی ہوں گی اور دو چاندی کی ‘ جس کے اندر زیور ‘ برتن اور تمام اشیاء چاندی کی ہوں گی ‘ الخ۔ بغوی نے حضرت ابوہریرہ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : جو شخص ڈرتا ہے وہ رات کو (بھی) چلتا ہے اور جو رات کو (بھی) چلتا ہے وہ منزل پر پہنچ جاتا ہے۔ سن لو ! اللہ جو چیز فروخت کرتا ہے وہ بیش قیمت جنت ہے۔ حضرت ابودرداء کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ ﷺ فرما رہے تھے : ولمن خاف مقام ربہ جنتان ‘ میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! خواہ زنا کیا ہو ‘ خواہ چوری کی ہو ؟ آپ ﷺ نے پھر وہی فرمایا ‘ پھر میں نے عرض کیا : یا رسول اللہ ! خواہ اس نے زنا کیا ہو یا چوری کی ہو تو پھر تیسری مرتبہ وہی فرمایا : (ولمن خاف مقام ربہ جنتان) پھر میں نے عرض کیا : خواہ اس نے زنا کیا ہو یا چوری کی ہو ؟ فرمایا : ہاں ! اگرچہ ابودرداء کی ناک خون آلود ہوجائے۔ (یعنی ابو درداء زمین پر ناک بھی رگڑے تب بھی حکم مذکور نہیں بدلے گا) ۔
Top