Tafseer-e-Mazhari - Al-An'aam : 158
هَلْ یَنْظُرُوْنَ اِلَّاۤ اَنْ تَاْتِیَهُمُ الْمَلٰٓئِكَةُ اَوْ یَاْتِیَ رَبُّكَ اَوْ یَاْتِیَ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ١ؕ یَوْمَ یَاْتِیْ بَعْضُ اٰیٰتِ رَبِّكَ لَا یَنْفَعُ نَفْسًا اِیْمَانُهَا لَمْ تَكُنْ اٰمَنَتْ مِنْ قَبْلُ اَوْ كَسَبَتْ فِیْۤ اِیْمَانِهَا خَیْرًا١ؕ قُلِ انْتَظِرُوْۤا اِنَّا مُنْتَظِرُوْنَ
هَلْ يَنْظُرُوْنَ : کیا وہ انتظار کررہے ہیں اِلَّآ : مگر اَنْ : یہ تَاْتِيَهُمُ : ان کے پاس آئیں الْمَلٰٓئِكَةُ : فرشتے اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے رَبُّكَ : تمہارا رب اَوْ يَاْتِيَ : یا آئے بَعْضُ : کچھ اٰيٰتِ : نشانیاں رَبِّكَ : تمہارا رب يَوْمَ : جس دن يَاْتِيْ : آئی بَعْضُ : کوئی اٰيٰتِ : نشانی رَبِّكَ : تمہارا رب لَا يَنْفَعُ : نہ کام آئے گا نَفْسًا : کسی کو اِيْمَانُهَا : اس کا ایمان لَمْ تَكُنْ : نہ تھا اٰمَنَتْ : ایمان لایا مِنْ قَبْلُ : اس سے پہلے اَوْ : یا كَسَبَتْ : کمائی فِيْٓ اِيْمَانِهَا : اپنے ایمان میں خَيْرًا : کوئی بھلائی قُلِ : فرمادیں انْتَظِرُوْٓا : انتظار کرو تم اِنَّا : ہم مُنْتَظِرُوْنَ : منتظر ہیں
یہ اس کے سوا اور کس بات کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آئیں یا خود تمہارا پروردگار آئے یا تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آئیں (مگر) جس روز تمہارے پروردگار کی کچھ نشانیاں آ جائیں گی تو جو شخص پہلے ایمان نہیں لایا ہوگا اس وقت اسے ایمان لانا کچھ فائدہ نہیں دے گا یا اپنے ایمان (کی حالت) میں نیک عمل نہیں کئے ہوں گے (تو گناہوں سے توبہ کرنا مفید نہ ہوگا اے پیغمبر ان سے) کہہ دو کہ تم بھی انتظار کرو ہم بھی انتظار کرتے ہیں
ہل ینظرون الا ان تاتیہم الملئکۃ او یاتی ربک او یاتی بعض ایت ربک . یہ لوگ صرف اس امر کے منتظر ہیں کہ ان کے پاس فرشتے آجائیں یا آپ کا رب آجائے یا آپ کے رب کی کوئی بڑی نشانی آجائے۔ ہل ینظرون : میں استفہام انکاری ہے یعنی اہل مکہ قرآن پر ایمان لانے کے لئے بس اس بات کے منتظر ہیں کہ الخ۔۔ الملائکہ : سے موت کے یا عذاب کے فرشتے مراد ہیں یا وہ ملائکہ مراد ہیں جو روبرو آکر رسول اللہ کی صداقت اور قرآن مجید کی حقانیت کی شہادت دیں۔ خلاصۂ مطلب یہ ہے کہ جس چیز کی اہل مکہ آرزو مند تھے وہ آگئی لیکن وہ ایمان نہ لائے تو شاید ایمان لانے کے لئے وہ ملائکہ کے آنے کے منتظر ہیں حالانکہ فرشتوں کے آنے کے بعد کوئی ایمان مفید نہ ہوگا۔ بیضاوی نے اس آیت کی تشریح میں لکھا ہے کہ (حقیقت میں وہ لوگ منتظر نہیں تھے بلکہ) ان کی حالت منتظر کی ایسی حالت تھی اس لئے بطور تشبیہ ما ینظرون : فرمایا۔ یہ بھی ممکن ہے کہ ملائکہ کے آنے سے مراد ہو قیامت کے دن میدان حشر میں فرشتوں کا آسمان سے اترنا اس کی تائید او یاتی ربک : کے فقرہ سے ہو رہی ہے قیامت کے دن میدان حشر میں مخلوق کا فیصلہ کرنے کے لئے اللہ رونق افروز ہوگا۔ جس کی رونق افروزی ہر کیفیت سے ماورا ہوگی۔ اسی کی مثل سورة بقرہ میں آیت ہل ینظرون الا ان یاتیہم اللہ فی ظلل من الغمام والملائکۃ وقضی الامر : گزر چکی ہے اور اس کی تفسیر میں سلف خلف کا جو اختلاف تھا وہ وہاں ذکر کردیا گیا ہے۔ فمن شاء فلیرجع۔ ایت ربک : سے مراد ہیں خصوصی علامت قیامت۔ بغوی نے لکھا ہے اس سے مراد ہے آفتاب کا پچھم کی طرف سے نکلنا اکثر اہل تفسیر کا یہی قول ہے حضرت ابو سعید خدری کی مرفوع روایت بھی اسی طرح کی آئی ہے۔ (1) [ حضرت ابن عباس کا بیان ہے کہ ایک بار حضرت عمر نے خبطہ میں فرمایا لوگو ! اس امت میں عنقریب کچھ ایسے لوگ ہوں گے جو حکم رحم کا انکار کریں گے خروج دجال کی تکذیب کریں گے پچھم کی طرف سے آفتاب کے طلوع (کی اطلاع) کو جھوٹا قرار دیں گے، عذاب قبر کی بھی تکذیب کریں گے، وقوع شفاعت کے بھی قائل نہ ہوں گے اور اس بات کو بھی نہیں مانیں گے کہ دوزخ سے کچھ لوگوں کو جھلسنے کے بعد نکالا جائے گا ] فصل : علامات قیامت۔ حضرت حذیفہ ؓ بن اسید غفری کا بیان ہے کہ ہم قیامت کے متعلق باہم گفتگو میں مشغول تھے کہ رسول اللہ ﷺ برآمد ہوئے اور فرمایا جب تک قیامت سے پہلے تم دس نشانیاں نہیں دیکھ لو گے قیامت نہیں آئے گی۔ پھر آپ نے (مندرجۂ ذیل امور کا) ذکر فرمایا۔ دھواں ‘ دجال۔ دابۃ الارض۔ مغرب سے سورج کا طلوع۔ عیسیٰ بن مریم کا اترنا۔ یاجوج ماجوج کا خروج۔ تین مرتبہ زمین کا دھنسنا ایک بار مشرق میں ایک بار مغرب میں ایک بار جزیرۂ عرب میں۔ آخر میں یمن سے ایک آگ کا نکلنا جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف کھدیڑ کرلے جائے گی۔ دوسری روایت میں ہے کہ قعر عدن سے ایک آگ برآمد ہوگی جو لوگوں کو میدان حشر کی طرف ہنکا کرلے جائے گی۔ ایک اور روایت میں آیا ہے کہ دسویں چیز ایک ہوائی طوفان ہوگا جو لوگوں کو سمندر میں پھینک دے گا۔ رواہ مسلم۔ حضرت عبداللہ بن عمرو کا بیان ہے میں نے خود سنا رسول اللہ فرماتے رہے تھے سب سے پہلی نشانی مغرب سے طلوع آفتاب اور دن چڑھتے دابۃ الارض کا خروج ہوگا ان دونوں علامتوں میں سے جو بھی پہلے ہوجائے گی فوراً اس کے پیچھے دوسری علامت بھی آجائے گی۔ رواہ مسلم۔ حضرت نواس ؓ بن سمعان کا بیان ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے دجال کا ذکر کیا اور فرمایا اگر میری موجودگی میں وہ برآمد ہوگیا تو میں تمہاری طرف سے اس سے نمٹ لوں گا اور اگر میں نہ ہوا اور وہ نکلا تو اس وقت ہر شخص اپنا دفاع کرے ہر مسلمان کا میری بجائے (براہ راست) اللہ نگہبان ہے۔ دجال جوان زولیدہ ہوگا جس کی ایک آنکھ باہر کو ابھری ہوئی یعنی پھولے والی ہوگی گویا عبدالعزی بن قطن میں سے میں اس کو تشبیہ دے سکتا ہوں اگر تم میں سے کوئی اس کو پالے تو سورة کہف کی ابتدائی آیات اس پر پڑھے وہ آیات دجال کے فتنہ سے پڑھنے والے کے لئے بچاؤ ہوجائیں گی۔ دجال شام و عراق کے درمیان خلہ میں برآمد ہوگا۔ دائیں بائیں تباہی مچائے گا۔ اللہ کے بندو تم (ایمان پر) جمے رہنا ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ اس کا قیام زمین پر کتنی مدت ہوگا فرمایا چالیس روز اس میں ایک دن یا ایک سال کے برابر ایک دن ایک ماہ کے برابر ایک دن ایک ہفتہ کے برابر اور باقی دن تمہارے انہی دنوں کی طرح ہوں گے ہم نے عرض کیا جو دن ایک سال کے برابر ہوگا کیا اس میں ایک دن کی نمازیں ہوں گی فرمایا نہیں اس کا اندازہ کرلینا۔ ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ وہ زمین میں کتنی تیز رفتار سے چلے گا فرمایا جیسے ہوا اپنے پیچھے بارش لاتی ہے بعض لوگوں کی طرف سے جب اس کا گزر ہوگا تو وہ اس پر ایمان لے آئیں گے اس پر آسمان اس کے حکم سے ان پر مینہ برسائے گا اور زمین سبزہ پیدا کر دے گی ان کے مویشی شام کو جنگل سے واپس آئیں گے تو ان کے تھن (دودھ سے) خوب بھرپور اور کو کیں پھولی ہوں گی (یعنی موٹے ہوجائیں گے) پھر کچھ اور لوگوں کی طرف سے گزرے گا اور ان کو دعوت دے مگر وہ دجال کی دعوت کو رد کردیں گے جب دجال ان کے پاس سے واپس ہوگا تو وہ سب کال میں مبتلا ہوچکے ہوں گے مال بالکل ختم ہوچکا ہوگا ان کے پاس کچھ نہ ہوگا۔ دجال ویرانے کی طرف سے گزرے گا وہ اپنے دفینے باہر نکال دے گا فوراً سارے خزانے اس کے پیچھے ہو لیں گے جیسے شہد کی مکھیاں یعسوب کے پیچھے ہوتی ہیں۔ پھر دجال ایک شخص کو بلائے گا جو جوانی سے بھرپور ہوگا تلوار اس کے دو ٹکڑے کر کے (ال الگ) بقدر نشانۂ تیر پھینک دے گا پھر اس کو بلائے گا تو وہ شگفتہ رو ہنستا ہوا سامنے سے آجائے گا۔ دجال اپنی اسی حالت میں ہوگا کہ اللہ مسیح ( علیہ السلام) بن مریم ( علیہ السلام) کو بھیج دے گا مسیح دمشق کے شرقی جانب سفید منارہ کے پاس دو فرشتوں کے بازو وں پر دونوں ہاتھوں کا سہارا دیئے اتریں گے سر جھکائیں گے تو چاندی کے موتیوں کی طرح (پسینہ کے) قطرے ٹپکیں گے اور سر اٹھائیں گے تب بھی موتیوں کی طرح (چہرہ سے) قطرہ بہیں گے جس کافر کو ان کی سانس کی ہوا پہنچے گی وہ مرجائے گا اور ان کے سانس کی رسائی وہاں تک ہوگی جہاں تک نظر کی پہنچ ہوگی۔ مسیح دجال کو ڈھونڈیں گے اور باب لد کے پاس اس کو پا کر قتل کردیں گے۔ پھر عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس کچھ لوگ آئیں گے جن کو اللہ نے دجال سے محفوظ کر رکھا ہوگا۔ عیسیٰ ( علیہ السلام) ان کے چہروں سے غبار صاف کریں گے اور جنت میں (ملنے والے) ان کے مراتب بیان کریں گے۔ اس کے بعد اللہ عیسیٰ ( علیہ السلام) کے پاس وحی بھیجے گا کہ اب میں نے اپنے کچھ بندے ایسے پیدا کردیئے ہیں جن سے لڑنے کی کسی میں طاقت نہیں تم میرے ان بندوں کو سمیٹ کر طور کی طرف لے جاؤ اس کے بعد اللہ یاجوج ماجوج کو بھیج دے گا جو ہر ٹیلہ کے پیچھے سے پھیلتے جائیں گے (ان کی تعداد اتنی ہوگی کہ) ان کا اگلا گروہ جب بحیرۂ طبریہ پر گزرے گا تو سب پانی پی جائے گا اور آخری لوگ جب وہاں سے گزریں گے تو کہیں گے ہم نے زمین کے باشندوں کو تو قتل کردیا اب ہم آسمان والوں کو قتل کرنا چاہتے ہیں چناچہ وہ اپنے چھوٹے تیر آسمان کی طرف پھینکیں گے اور اللہ ان کے تیروں کو خون سے رنگین کر کے واپس کر دے گا (تو وہ بہت خوش ہوں گے) اللہ کا نبی اور اس کے ساتھی (اس پوری مدت میں کوہ طور پر) محصور رہیں گے یہاں تک کہ ایک بیل کی سری ان کے لئے اس سے زیادہ بہتر ہوگی جتنے آج کل سو دینار تمہارے لئے۔ اس کے بعد اللہ کے نبی عیسیٰ اور ان کے ساتھ دعا کریں گے تو اللہ یاجوج ماجوج کی گردنوں میں گلٹیاں پیدا کر دے گا جن کی وجہ سے وہ سب کے سب ایک آدمی کی طرح صبح کو مرجائیں گے پھر عیسیٰ نبی اللہ اور ان کے ساتھی نیچے اتر کر آئیں گے لیکن زمین پر بالشت بھر جگہ ان کو ایسی نہیں ملے گی جو سڑاند اور تعفن سے بھری نہ ہو عیسیٰ نبی اللہ اور ان کے ساتھی اللہ سے دعا کریں گے تو اللہ کچھ پرندوں کو بھیج دے گا جو بختی اونٹوں کی گردنوں کی طرح (لمبے لمبے) ہوں گے یہ پرندے ان کو اٹھا کرلے جائیں گے اور جہاں اللہ کی مرضی ہوگی پھینک دیں گے۔ ایک روایت میں آیا ہے کہ اللہ ان کو نہبل میں پھینک دے گا۔ (1) [ صاحب قاموس نے لکھا ہے کہ ترمذی میں حدیث دجال میں نہبل کا لفظ آیا ہے مگر یہ غلط ہے صحیح میم کے ساتھ ہے ] اور مسلمان یاجوج ماجوج کی کمانوں تیروں اور تیر دانوں کو سات برس تک ایندھن کے طور پر استعمال کریں گے پھر اللہ بارش کر دے گا جو ساری زمین کو دھو کر باغ کر طرح کر دے گا۔ کسی کچے مکان یا ڈیرے کی چھت محفوظ نہیں رہے گی اس کے بعد زمین کو حکم ہوگا اپنی سبزی اگا اور پیداوار کو لوٹا کر دے دے چناچہ اس زمانہ میں ایک انار ایک جماعت کے لئے کافی ہوگا اور انار کے چھلکے سے لوگ سائبان بنائیں گے دودھ میں برکت ہوجائے گی دودھ دینے والی ایک اونٹنی ایک بڑے گروہ کے لئے دودھ دینے والی ایک گائے ایک قبیلہ کے لئے اور دودھ دینے والی ایک بکری قبیلہ کے ایک خاندان کے لئے کافی ہوگی اسی حالت میں اللہ ایک خوشگوار ہوا بھیجے گا جو لوگوں کی بغلوں کے نیچے لگے گی اور ہر مومن و مسلم کی روح قبض ہوجائے گی صرف شریر لوگ باقی رہ جائیں گے جو فتنے فساد اور گڑ بڑ کریں گے جیسے گدھے آپس میں کرتے ہیں انہی پر قیامت بپا ہوگی۔ رواہ مسلم۔ مسلم کی روایت میں ثم یطرحہم بالنہبل : سے سبع سنین : تک نہیں ہے اور ترمذی کی روایت میں یہ بھی مذکور ہے۔ حضرت حذیفہ ؓ راوی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دجال خروج کرے گا اس کے ساتھ پانی بھی ہوگا اور آگ بھی۔ لوگ جس کو پانی خیال کریں گے وہ آتش سوزاں ہوگی اور جس کو آگ سمجھیں گے وہ ٹھنڈا میٹھا پانی ہوگا تم لوگوں میں جو شخص اس کو پائے تو جس کو آگ سمجھتا ہو اسی میں پڑجائے وہ حقیقت میں شیریں پاکیزہ پانی ہوگا۔ متفق علیہ۔ مسلم کی روایت میں اتنا زائد ہے کہ دجال کی ایک آنکھ پٹ ہوگی ایک موٹا ناخونہ اس پر چڑھا ہوگا اس کی دونوں آنکھوں کے درمیان لفظ کافر لکھا ہوگا جس کو ہر مؤمن پڑھ لے گا لکھنے والا ہو یا لکھنے والا نہ ہو۔ صحیحین میں حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے آیا ہے کہ دجال کے ساتھ جنت و دوزخ کی شبیہ (یعنی راحت و دکھ کی چیزیں) ہوگی جس کو وہ جنت کہے گا وہ دوزخ ہوگی۔ حضرت حذیفہ ؓ کی روایت سے مسلم نے بھی ایسا ہی لکھا ہے۔ مسلم نے حضرت ابو سعید ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ اس کو یعنی دجال کو جب مؤمن دیکھے گا تو کہے گا لوگو ! یہ وہی دجال ہے جس کا ذکر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا دجال کے حکم سے اس کو سر کی مانگ سے نیچے تک آرے سے چیر کر دونوں ٹانگیں الگ الگ کردیں جائیں گی ‘ پھر دجال دونوں ٹکڑوں کے درمیان جا کر کہے گا اٹھ جا مؤمن زندہ ہو کر سیدھا کھڑا ہوجائے۔ دجال اس سے کہے گا کیا (اب) تجھے میرا یقین ہوا مؤمن کہے گا تیرے اس فعل سے تو میری بصیرت اور بڑھ گئی (یقیناً تو دجال ہے) الحدیث۔ امام احمد ؓ نے حضرت اسماء بنت یزید کی روایت سے ذکر کیا ہے کہ دجال کے شدید ترین فتنوں میں سے ایک واقعہ یہ ہوگا کہ دجال کے ایک اعرابی سے جا کر کہے گا اگر میں تیرے اونٹ زندہ کر دوں تو کیا تو جب بھی مجھے اپنا رب نہ مانے گا اعرابی کہے گا ضرور مانوں گا۔ فوراً شیطان اس کے اونٹوں کے بھیس میں اس کے سامنے آجائے گا ان کے لمبے لمبے خوبصورت تھن اور اونچے اونچے کوہان ہوں گے ایک شخص کا بھائی اور باپ مرچکا ہوگا ‘ دجال اس سے کہے گا اگر میں تیرے باپ اور بھائی کو زندہ کر دوں تو کیا تو مجھے اپنا رب نہیں مانے گا۔ وہ شخص ا کہے گا بیشک مان لوں گا فوراً شیطان اس کے باپ اور بھائی کی شکل میں نمودار ہوجائے گا۔ الحدیث۔ فصل : (امام) مہدی کا ظہور مذکورۂ بالا نشانیوں سے پہلے ہوگا۔ حضرت ابن مسعود ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اگر دنیا کی عمر کا صرف ایک دن رہ جائے گا تب بھی اللہ اس دن کو اتنا لمبا کر دے گا کہ ایک شخص کو مبعوث فرما دے جو مجھ سے ہوگا یا فرمایا وہ میرے اہل بیت میں سے ہوگا اس کا نام میرے نام کے اور اس کے باپ کا نام میرے باپ کے نام کے موافق ہوگا (یعنی وہ بھی محمد بن عبداللہ ہوگا) جس طرح (اس زمانہ میں) زمین ظلم اور ناانصافی سے بھری ہوگی وہ اتنا ہی زمین کو انصاف اور عدل سے بھر دے گا۔ ترمذی کی روایت کے الفاظ میں یہ دنیا ختم نہ ہوگی جب تک عرب کا مالک ایک ایسا شخص نہ ہوجائے گا۔ جو میرے اہل بیت میں سے ہوگا اور اس کا نام میرا نام ہوگا۔ حضرت ام سلمہ ؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ایک خلیفہ کے مرنے پر لوگوں میں اختلاف ہوجائے گا تو اہل مدینہ میں سے ایک شخص بھاگ کر مکہ کو چلا جائے گا وہاں مکہ والے اس کو (گھر کے اندر سے) نکال کر باہر لائیں گے وہ پسند نہ کرے گا مگر اس کی ناگواری کے باوجود رکن اور مقام ابراہیم ( علیہ السلام) کے درمیان اس کی بیعت کریں گے اس کے پاس ایک وفد شام سے بھیجا جائے گا مگر مکہ اور مدینہ کے درمیان بیداء میں اللہ اس کو زمین کے اندھا دھنسا دے گا لوگ جب یہ حالت دیکھیں گے تو پھر اس کے پاس شام کے ابدال اور اہل عراق کی جماعتیں آئیں گی اور اس کی بیعت کریں گے یہ شخص نبی ﷺ کی سنت پر عمل کرے گا اور اسلام اپنا سینہ زمین پر ٹکا دے گا (یعنی ساری زمین پر اسلام بپا ہوجائے گا) سات برس تک یہ شخص رہے گا پھر اس کی وفات ہوجائے گی اور مسلمان اس کی نماز پڑھیں گے۔ رواہ ابو داؤد۔ ابو داؤد کی روایت ہے کہ حضرت علی ؓ نے اپنے صاحبزادے (امام) حسن ؓ کی طرف دیکھ کر فرمایا میرا یہ بیٹا سید ہے جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے سید (کے لفظ) کے ساتھ اس کو نام زد فرمایا تھا اس کی پشت سے ایک آدمی پیدا ہوگا جو تمہارے نبی ﷺ کا ہم نام ہوگا اور جو خصلت میں تمہارے نبی کے مشابہ ہوگا اگرچہ جسمانی بناوٹ میں آپ کے مشابہ نہ ہوگا وہ زمین کو انصاف سے بھر دے گا۔ حضرت ابو سعید ؓ خدری کا بیان مہدی کے قصہ کے سلسلہ میں آیا ہے پھر ایک شخص آکر مہدی سے کہے گا مہدی مجھے کچھ دیجئے مجھے کچھ عنایت کیجئے مہدی لپوں سے بھر کر (یعنی دونوں ہاتھوں سے بھر کر) اس کے کپڑے میں اتنا ڈال دیں گے جتنا وہ اٹھا سکتا ہوگا۔ رواہ الترمذی۔ حاکم نے مستدرک میں لکھا ہے آسمان کے رہنے والے اور زمین کے رہنے والے اس سے راضی ہوں گے آسمان سے خوب موسلا دھار بارشیں ہوں گی اور زمین اپنے اندر کی ہر سبزی برآمد کر دے گی یہاں تک کہ زندہ مردوں کی تمنا کریں گے (کہ کاش وہ بھی زندہ ہوتے اور یہ ارزانی اور فراونی دیکھتے) مہدی اس حالت میں سات یا آٹھ یا نو سال رہیں گے (پھر آپ کی وفات ہوجائے گی) یوم یاتی بعض ایت ربک لا ینفع نفسا ایمانہا لم تکن امنت من قبل او کسبت فی ایمانہا خیرا . جس روز آپ کے رب کی بڑی نشانی آپہنچے گی کسی ایسے شخص کا ایمان اس کے کام نہ آئے گا جو پہلے سے ایمان نہیں رکھتا یا اس نے اپنے ایمان میں کوئی نیک عمل نہ کیا ہو۔ مثلاً جو شخص مر رہا ہو اور یقینی موت نظر کے سامنے آگئی ہو تو اس حالت میں ایمان غیر مفید ہے کیونکہ ایمان بالغیب واجب ہے (مشاہدۂ موت اور معائنۂ ملائکۂ موت کی حالت میں ایمان بالغیب نہیں رہتا) لم تکن امنت نفسا : کی صفت ہے اور کسبت : کا عطف امنت : پر ہے (یعنی کسبت : بھی نفی کے تحت ہے) بعض علماء قائل ہیں کہ صرف ایمان جو عمل سے بالکل خالی ہو غیر مفید اور ناقابل اعتبار ہے کیونکہ اس آیت کا معنی یہ ہے کہ جو شخص پہلے سے ایمان نہ لایا ہو ‘ مرنے کے وقت اس کا ایمان فائدہ بخش نہیں ‘ یا ایمان تو پہلے سے لایا ہو مگر اس نے ایمان کے مطابق کوئی عمل نہ کیا ہو ‘ اس کا ایمان بھی غیر مفید ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ آیت کا مفہوم یہ نہیں کہ ایمان کی حالت میں اور مومن ہونے کے بعد اگر کسی نے کوئی نیکی نہ کی تو اس کا ایمان بالکل غیر مفید ہے بلکہ مراد یہ ہے کہ صرف اس روز اس کا وہ سابقہ ایمان جو عمل صالح سے خالی ہو کارآمد نہ ہوگا۔ یوں بھی جواب دیا جاسکتا ہے کہ اگر دو امور مذکور ہوں اور نکرہ ہوں اور ایک نفی کے دائرہ میں داخل ہو تو نفی کا ورود دوسرے پر بھی قرار دیا جاسکتا ہے جیسے ایت ولا تطع منہم اثما او کفوراً : میں اثم : اور کفو : (دونوں کی اطاعت کی ممانعت کی گئی ہے (اثما لا : کے تحت اور کفورا او : کے بعد آیا ہے مگر ممانعت اطاعت کا تعلق دونوں سے ہے) اس صورت میں آیت کا معنی یہ ہوگا کہ جو نفس ایمان نہ لایا ہو اس کو بھی موت کے وقت ایمان لانا مفید نہ ہوگا اور جس نے نیکی نہ کی ہو اس کو بھی مرنے کے وقت ایمان لانے سے فائدہ نہ ہوگا۔ بغوی نے لکھا ہے آیت کا معنی یہ ہے کہ ایسے وقت میں نہ کافر کا ایمان مقبول ہے نہ فاسق کی توبہ۔ اس قول پر فی ایمانہا : میں ایمان سے بطور عموم مجاز توبہ مراد ہوگی کیونکہ لفظ توبہ دونوں قسموں کو حاوی ہے کفر سے توبہ گناہوں سے توبہ۔ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ نے مغرب میں توبہ کا ایک دراوزہ بنایا ہے جس کی چوڑائی ستر سال کے راستہ کے برابر ہے۔ جب تک سورج کا طلوع اس طرف سے نہ ہوگا وہ دروازہ بند نہیں کیا جائے گا یہ ہی مراد ہے اللہ کے اس فرمان کی یوم یاتی بعض ایت ربک لاینفع نفسا ایمانہا لم تکن امنت من قبل :) یعنی آیت میں بعض آیات سے مغرب سے آفتاب کا طلوع مراد ہے) رواہ الترمذی و ابن ماجۃ من حدیث صفوان بن عسال۔ مسلم نے حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا اللہ (قبول توبہ کے لئے) رات میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن کا گناہگار (رات کو) توبہ کرلے اور دن میں اپنا ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ (دن کو) توبہ کرلے یہ سلسلہ اس وقت تک رہے گا جب آفتاب پچھم کی طرف سے نکلے گا۔ حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے مسلم نے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا جس نے مغرب کی طرف سے سورج نکلنے سے پہلے توبہ کرلی اللہ اس کی توبہ قبول فرما لے گا۔ احمد دارمی اور ابو داؤد نے حضرت معاویہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہجرت منقطع نہ ہوگی جب تک توبہ بند نہ ہوجائے اور توبہ بند نہ ہوگی جب تک سورج مغرب کی طرف سے برآمد نہ ہوجائے۔ ان تمام احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت لا ینفع نفسا ایمانہا : میں ایمان سے مراد توبہ ہے لیکن کچھ احادیث میں ایمان سے توبہ کے علاوہ دوسرا معنی بھی مراد لیا گیا ہے۔ بغوی نے اپنی سند سے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا قیامت بپا نہ ہوگی جب تک سورج مغرب کی طرف سے برآمد نہ ہوجائے جب سورج (مغرب سے) نکل آئے گا اور لوگ اس کو دیکھ لیں گے تو سب کے سب ایمان لے آئیں گے لیکن جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہوگا یا ایمان کی حالت میں اس نے کوئی نیکی نہ کی ہوگی اس وقت اس کا ایمان لانا مفید نہ ہوگا۔ مسلم نے حضرت ابوہریرہ ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تین امور ہیں جب وہ ظاہر ہوجائیں گے تو جو پہلے سے ایمان نہ لایا ہوگا یا ایمان کی حالت میں اس نے کوئی نیکی نہ کی ہوگی اس وقت اس کا ایمان مفید نہ ہوگا۔ دجال ‘ دابۃ الارض اور آفتاب کا مغرب سے طلوع۔ ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آیت لا ینفع نفسا ایمانہا : میں ایمان سے مراد یہ ہے کہ جو شخص اس وقت سے پہلے مؤمن نہ ہوگیا ہو اس وقت اس کا ایمان لانا معتبر نہ ہوگا۔ فائدہ : اس آیت سے بظاہر صرف اتنا معلوم ہو رہا ہے کہ جو شخص بعض آیات کے ظہور سے پہلے کافر ہو ایمان نہ لایا ہو اور اس وقت ایمان لائے تو اس کا ایمان قبول نہ ہوگا لیکن جس شخص کی پیدائش ہی بعض آیات کے ظہور کے بعد ہوئی یا علامات کے نمودار ہونے کے بعد وہ عاقل بالغ ہو اور اس کے بعد ایمان لایا تو ظاہر ہے کہ اس کا ایمان معتبر ہوگا ‘ ابن جوزی نے کتاب الوفاء میں حضرت ابن عمر ؓ کی روایت سے لکھا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا عیسیٰ ( علیہ السلام) بن مریم ( علیہ السلام) زمین پر اتریں گے نکاح کریں گے ان کی اولاد ہوگی اور 45 برس (زندہ) رہیں گے پھر مرجائیں گے اور میرے ساتھ میری قبر میں دفن کئے جائیں گے میں اور عیسیٰ ( علیہ السلام) بن مریم ایک قبر سے ابوبکر ؓ و عمر ؓ کے درمیان اٹھیں گے۔ قل انتظروا انا منتظرون . آپ ﷺ کہہ دیجئے (اے مکہ والو) تم انتظار رکھو ہم بھی بلا شبہ منتظر ہیں۔ یہ اہل مکہ کو عذاب کی دھمکی دی ہے یعنی اس وقت ہم کو کامیابی حاصل ہوگی اور تم عذاب میں مبتلا ہو گے۔
Top